• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 149529

    عنوان: فجر کی فرض نماز میں دعائے قنوت پڑھنا کیسا ہے؟

    سوال: (۱) عشاء کی جماعت میں دو رکعت چھوٹ گئی، امام کے سلام پھیرنے کے بعد کیا دونوں رکعت میں سورہ ملانا چاہئے یا صرف سورہ فاتحہ پڑھ کر رکوع کیا جائے گا؟ غیر مقلدین کہتے ہیں جو دو رکعت آپ نے اپنے امام کے ساتھ پائی تھی وہ آپ کی پہلی دو رکعت ہوگئی، اب آپ صرف سورہ فاتحہ پڑھ کر رکوع کریں، ایسی کوئی حدیث ہے؟ صحیح طریقہ کیا ہے؟ حدیث کا ترجمہ اردو میں لکھیں مہربانی ہوگی۔ (۲) فجر کی فرض نماز میں دعائے قنوت پڑھنا کیسا ہے؟ (۳) کیا خود کی شادی میں نکاح خود پڑھانا کیسا ہے؟

    جواب نمبر: 149529

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 700-1003Sn=9/1438

    جی ہاں! پہلی دونوں رکعتوں میں سورت ملانا واجب ہے، محض فاتحہ پر اکتفاء کرنا کافی نہیں ہے؛ کیوں کہ جو شخص امام کے ساتھ دو رکعت گزرجانے کے بعد شریک ہوا، اس نے تو صرف اخیر کے دو رکعات پائی، لہٰذا امام کے سلام کے بعد جب کھڑا ہوگا تو وہ شروع کی چھوٹی ہوئی دو رکعتیں پڑھے گا اور اس میں سورہٴ فاتحہ کے ساتھ قراء ت ملانا ضروری ہے؛ لہٰذا یہ شخص اپنی نماز پوری کرتے وقت بھی سورہٴ فاتحہ کے ساتھ سورت ملائے گا، یہی احناف کا مسلک ہے، یعنی قرأت کے حق میں مسبوق کی نماز جو وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کرے گا اولِ صلاة ہے۔ ابوداوٴد کی ایک طویل روایت میں یہ مضمون آیا ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ فجر کی ایک رکعت چھوٹ گئی تو آپ نے سلامِ امام کے بعد کھڑے ہوکر چھوٹی ہوئی رکعت پڑھی (ابوداود، رقم: ۱۵۲) حدیث میں ”سُبِقَ بہا“ کے الفاظ وارد ہوے ہیں۔ ”بَقِیَت مِنہ“ استعمال نہیں کیا گیا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ مسبوق کی جو رکعتیں چھوٹ گئیں وہ اول صلات ہے اور جو رکعتیں انھیں ملیں وہ اس کے حق میں آخری صلات ہے۔ إن المغیرة رضي اللہ عنہ قال: فلمّا سلم قام النبي -صلی اللہ علیہ وسلم- فصلی الرکعة التي سبق بہا ولم یقل صلی الرکعة التی بقیت منہ فہو یدل علی أن ما فاتہ أي المسبوق ہو أول صلاتہ وما أدرک مع الإمام ہو آخر صلاتہ وبہ نقول․ (إعلاء السنن، ابواب الإمامة: ۴/۳۸۸، ط: کراچی)

    (۲) احناف کے نزدیک نمازِ فجر میں قنوت پڑھنا عام حالات میں مشروع نہیں ہے۔

    (۳) معلوم نہیں خود نکاح پڑھانے کی کیا صورت آپ کے ذہن میں ہے؟ بہرحال اگر لڑکا مجلس نکاح میں گواہوں کی موجودگی میں خود یہ کہے کہ میں فلانہ بنت فلاں سے اتنے مہر پر نکاح کیا، اس پر لڑکی خود یا اس کا وکیل قبول کرلے تو شرعاً نکاح ہوجائے گا، اور لڑکے کے لیے خود اس طرح کہنا یعنی نکاح کرنا شرعاً جائز اور درست ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند