عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 149247
جواب نمبر: 149247
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 667-678/sn=7/1438
اہل قبلہ وہ لوگ ہیں جو تمام ضروریاتِ دین یعنی ان تمام عقائد واحکام کو مانتے ہوں جن کا ثبوت شریعت میں یقینی اور معروف ومشہور ہے۔ (اکفار الملحدین، مترجم بہ حوالہ نبراس، ص: ۷۱) سلفی اور بالعموم بریلوی حضرات ضروریاتِ دین کو مانتے ہیں؛ اس لیے ان کے پیچھے نماز درست ہے یعنی اگر ان کے پیچھے نماز پڑھی گئی تو فریضہ سر سے اتراجائے گا بہ شرطے کہ سلفی حضرات مفسد صلات امور میں مقتدیوں کے مسلک کی رعایت کریں؛ لیکن ان لوگوں کے عقائد اور اعمال میں فساد ہونے کی وجہ سے نماز ان کے پیچھے مکروہ ہوتی ہے؛ لہٰذا کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کی جائے جن کے اعتقاد اور عمل میں کسی طرح کا فساد نہ ہو۔ (حاشیة الطحطاوی علی المراقي: ص: ۳۰۲)
(۲) اگر شافعی امام وتر کی ادائیگی میں حنفی مقتدیوں کی رعایت کریں یعنی وتر دو سلام کے بہ جائے ایک سلام سے پڑھیں تب تو ان کے پیچھے حنفی مقتدی کی نماز وتر بلاشبہ درست ہے، اگر حنفی مقتدیوں کی رعایت نہ کریں تو چوں کہ جمہور احناف کے نزدیک باجماعت نماز میں مقتدی کے اعتقاد کا اعتبار ہے اور حنفی مسلک میں وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا واجب ہے، اس لیے شافعی امام کے پیچھے حنفی مقتدیوں کی وتر درست نہ ہوگی، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شوافع کے نزدیک وتر دو سلاموں کے ساتھ پڑھنا محض ایک امر مندوب ہے اور صورتِ مسئولہ میں شافعی امام کے پیچھے نماز وتر کا نہ ہونا؛ اس لیے نہیں کہ ان کے پیچھے نماز درست نہیں ہوتی یا انھیں ”اہل قبلہ“ سے خارج کردیا گیا ہے؛ بلکہ اختلافی مسائل میں احناف کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے احتیاطاً یہ حکم ہے۔ وقال ابن الشحنة: فالحاصل أن قاضیخان قال في فتاواہ: لا یجوز الاقتداء من یقطع الوتر وکذا في الفوائد الظہریة؛ لأن المقتدي یری أن إمامہ خرج عن الصلاة بسلامہ ومَبْنی الخلاف علی أن المعتبر رأی المقتدي أو رأی الإمام الخ (شرح منظومہ ابن وہبان) نیز دیکھیں: موسوعة فقہیہ: ۲۷/ ۲۹۵، بیان صفة الوتر، درمختار مع الشامي: ۲/ ۴۴۴، ط: زکریا وغیرہ)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند