• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 149073

    عنوان: کیا عورتوں اور مردوں کی نماز کا طریقہ الگ ہے تو کیوں؟

    سوال: کیا عورتوں اور مردوں کی نماز کا طریقہ الگ ہے تو کیوں؟ احادیث کی روشنی میں بتائیں۔

    جواب نمبر: 149073

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 764-887/L=7/1438
    عورت کے معنی چھپانا، عورت کو عورت اس لیے کہا جاتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس کو چھپایا جائے، اسی معنی کی طرف دیکھتے ہوئے بہت سے احکام کے اندر عورت اور مرد کے درمیان فرق کیا گیا ہے، مثلاً مخصوص چند اعضاء کو چھوڑکر پورا جسم عورت کا ستر ہے جب کہ مرد کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہے، عورت اکیلی حج نہیں کرسکتی، سورہٴ نور میں عورت کو زیادہ کپڑے پہننے کا حکم دیا گیا، یہاں تک کہ عورت اور مرد کے عطر میں بھی فرق کیا گیا، نماز میں کیفیت کے اعتبار سے مرد اور عورت کے درمیان فرق کے سلسلے میں کچھ دلیل پیش کی جاتی ہیں:
    (۱) عن أبي سعید الخدري رضي اللہ عنہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یأمر الرجال أن یتجافوا في سجودہم ویأمر النساء أن یخفضن في سجودہن․ (بیہقی: ۲/۲۲۲، موسوعة اطراف الحدیث)
    حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ وہ سجود میں اپنے اعضاء کو کشادہ رکھیں اور عورتوں کو حکم دیتے کہ وہ سجدے میں اپنے جسم کو پست اور سمیٹ کر رکھیں۔
    (۲) أن النبي مر علی امرأتین تصلیان فقال إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأة في ذلک لیست کالرجل (کنز العمال: ۷/ ۴۶۲، جمع الجوامع: ۱/۲۴۶)
    یعنی ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز پڑھنے والی دو عورتوں کے پاس سے گذر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصے کو زمین سے ملاوٴ کیونکہ عورت سجدہ کرنے میں مرد کی طرح نہیں ہے۔
    (۳) عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فإذا سجدت الصقت بطنہا في فخذیہا کأستر ما یکون لہا وأن اللہ ینظر إلیہا ویقول یا ملائکتي أشہدکم أني قد غفرت لہا․(کنز العمال: ۷/ ۵۴۹، جامع الأحادیث: ۳/۴۳)
    حضرت ابن عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں․․․ اور جب عورت سجدہ کرے گی تو اپنا پیٹ رانوں سے ملائے جتنا چھپانا ممکن ہو اپنے اعضاء کو چھپائے گی اور اللہ تعالیٰ ایسی عورت کی طرف دیکھ کر فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! تم کو میں اس کی مغفرت پر گواہ بناتا ہوں۔
    (۴) عن إبراہیم قال إذا سجدت المرأة فلیلتزق بطنہا بفخذیہا لا ترفع عجیزتہا ولا تجافی کما یجافی الرجل (مصنف ابن أبي شیبہ: ۱/ ۱۷۰)
    مشہور تابعی حضرت ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ بیٹ کو دونوں رانوں سے ملائے اور سرین کو نہ اٹھائے اور مرد کی طرح کھل کر سجدہ نہ کرے۔
     حضرت امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فیعرف بہ أن ہذہ المسئلة کانت ناشیة في عصر الصحابة والتابعین وکأن الصحابة والتابعین قائلین بالتجافي للرجل دون النساء وأما أقوال الفقہاء من الحنفیة والمالکیة والشافعیة والحنابلة وشراح الأحادیث فکثیرة أذکر منہا بقدر الحاجة․ (سنن کبری للبیہقي (۲/۲۲۲) اس (ابراہیم نخعی کے اثر) سے معلوم ہوا کہ یہ (مرد اور عورت کی نماز میں فرق کا) مسئلہ صحابہ کرام اور تابعین کے زمانہ میں مشہور تھا اور صحابہ وتابعین نماز میں مردوں کے لیے اعضاء کشادہ کرنے کے قائل تھے نہ کہ عورتوں کے لیے، رہے حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی فقہاء اور حدیث کے شارحین کے اقوال تو یہ بہت ہیں، ان میں سے چند بقدر ضرورت نقل کرتا ہوں:
    مرد اور عورت کی نماز میں فرق کے قائل مذاہب اربعہ کے علماء اور شراح حدیث کے علاوہ غیرمقلدین علماء بھی ہیں، چنانچہ غیر مقلد فقیہ ومحدث مولانا عبدالحق ہاشمی نے نصب العہود فی تحقیق مسئلة تجافی المرأة في الرکوع والسجود والقعود (۴۲ تا ۴۵) میں اور مولانا عبدالجبار غزنوی نے فتاوی علمائے اہل حدیث (۳/۱۴۸) میں بھی فرق کیا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند