• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 148290

    عنوان: خطبہ اذان کا جواب دینا کیسا ہے؟

    سوال: خطبہ کی اذان کا جواب دینا کیسا ہے ؟ اور اقامت کا جواب دینا کیسا ہے ؟ براہ کرم دلیل ضرور تحریر فرمائیں۔

    جواب نمبر: 148290

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 303-385/N=5/1438

    (۱):احوط اور مفتی بہ قول کے مطابق خطبہ کی اذان کا جواب زبان سے نہیں دیا جائے گا؛ البتہ صرف دل دل میں جواب دے سکتے ہیں(عزیز الفتاوی، ص ۲۹۹- ۳۰۱، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی، امداد المفتین، ص ۳۳۱- ۳۳۴، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی، فتاوی محمودیہ جدید ۸:۳۲۴- ۳۳۲، سوال: ۳۸۳۶-۳۸۴۰، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل ، کفایت المفتی جدید۳: ۲۶۳، جواب:۴۰۸، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)۔

    (۲): اقامت سے مراد اگر نماز جمعہ کی اقامت ہے تو اس کا حکم وہی ہے جو اوپر خطبہ کی اذان کا ذکر کیا گیا۔ ( وإذا خرج الإمام فلا صلاة ولا کلام)، وھو قول الإمام؛ لأنہ نص النبي علیہ الصلاة والسلام، ………(حتی یفرغ من صلاتہ)،……والدعاء المستجاب وقت الإقامة یحصل بالقلب لا باللسان (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوي، ص ۵۱۸- ۵۲۰، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔

     اور اگر دیگر نمازوں کی اقامت مراد ہے تو اس کا جواب دے سکتے ہیں؛ بلکہ دینا چاہیے، مستحب ہے۔ (امداد الاحکام، ۱: ۴۷۶، سوال: ۱۲، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی)۔ ویستحب أیضاً إجابة الإقامة کما أشیر إلیہ فیما تقدم، وروی أبو داود عن رجل عن شھر بن حوشب عن أبي أمامة أو عن بعض أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن بلالاً أخذ فی الإقامة فلما أن قال: قد قامت الصلاة قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: أقامھا اللہ وأدامھا ، وقال في سائر الإقامة کنحو حدیث عمر فی الأذان(غنیة المستملي ص ۳۸۰، ط المکتبة الأشرفیة دیوبند) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند