• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 148023

    عنوان: قضا نمازوں کے حوالے سے سعودی مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتوی درست ہے یا نہیں؟

    سوال: قضا نمازوں کے حوالے سے سعودی مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتوٰی ملاحظہ کیجیے :علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر اس کی قضا واجب نہیں ہے ۔ کیونکہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا کفر ہے جو آدمی کو اسلام سے نکال کر زمرہ کفار میں داخل کر دیتا ہے ۔ اور کافر پر حالت کفر میں چھوڑے ہوئے کاموں کی قضا نہیں ہوتی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے :آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز کو چھوڑ دینے (کا فرق) ہے ۔(صحیح مسلم الإیمان (82),سنن الترمذی الإیمان (2620),سنن أبو داود السنة (467\n,سنن ابن ماجہ إقامة الصلاة والسنة فیہا (107,مسند أحمد بن حنبل (3/370),سنن الدارمی الصلاة (1233)نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام قبول کرنے والوں سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ وہ سابقہ نمازیں دہرائیں جو ان پر حالتِ کفر میں فرض تھیں نہ ان کے بعد صحابہ نے ان لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جو مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوئے ۔بھول جانے ،سوئے رہنے کی وجہ سے اور بے ہوشی کی وجہ سے رہ جانے والی نمازوں کو قضا کیا جائے گا۔بہت سے لوگ سابقہ نمازوں کی قضا کے خوف سے نماز کی باقاعدہ ادائیگی شروع نہیں کرتے ۔دین آسان ہے ، اسے اسی طرح رہنا چاہیے جیسے اللہ کے نبی ﷺ نے پیش کیا تھا۔ ادھر تو یہ حال ہے کہ کوئی مسجد میں چلا جائے تو آسانی پیدا کرنے کی بجائے اسے کہا جاتا ہے کہ میاں پچھلے بیس تیس برس کدھر تھے ، سابقہ نمازوں کی گنتی پوری کرو، پھر آگے چلنا۔ یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے کہ توبہ کرنے والے انسان کو حوصلہ دینے کی بجائے الٹا پچاس سال کی نمازوں کی قضا کا مژدہ سنا دیا جائے ۔فرمان رسول ﷺ ہے :\"بَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا خوشخبری سناؤ اور نفرت نہ دلاؤ\"یَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوالوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو مشکلات نہ بناؤصحیح بخاری:قضا نمازوں کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا مسئلہ کفر اسلام کا مسئلہ نہیں ہے ۔ صحیح قول یہی ہے کہ ان کی ادائیگی ضروری نہیں۔\nاللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِکَ یُبَدِّل اللَّہ سَیِّئَاتہمْ حَسَنَات (الفرقان:70) الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرے اور ایمان لا کر عملِ صالح کرنے لگے ، ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکی سے بدل دے گا۔اور فرمایا:وَإنّی لَغَفَّار لمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَملَ صَالحًا ثُمَّ اہْتَدَی (طہ:82)، جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے ، پھر سیدھا چلتا رہے ، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں اگر کسی شخص نے شرعی عذر کی بنا پر نماز ترک کی مثلا نیند یا بھول کر تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب اسے یاد آئے اور سویا ہوا بیدار ہو تو اسی وقت نماز ادا کر لے ، اس کے علاوہ کوئی اور کفارہ نہیں۔جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :\" جو کوئی بھی نماز بھول جائے یا اس سے سویا رہے تو جب اسے یاد آئے وہ نماز ادا کر لے ، اس کا کفارہ یہی ہے \"صحیح بخاری حدیث نمبر :572 صحیح مسلم:1564،کوئی فدیہ چھوڑی ہوئی نماز کے لیے نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ یہ بات دین میں ثابت نہیں ہے ۔جس نے ایک یا زیادہ فرض نمازیں بغیر کسی عذر کے ترک کردیں اسے اللہ تعالی کے ہاں سچی توبہ کرنی چاہیے ، اور اس کے ذمہ کوئی قضاء اور کفارہ نہیں، کیونکہ فرضی نماز جان بوجھ کر ترک کرنا کفر ہے ۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :\" ہمارے اور ان کے مابین عہد نماز ہے ، جس نے بھی نماز ترک کی اس نے کفر کیا \"مسند احمد حدیث نمبر ( 22428 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2621 ) سنن نسائی حدیث نمبر ( 462 )۔اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :" آدمی اور شرک اور کفر کے مابین نماز کا ترک کرنا ہے \"صحیح مسلم حدیث نمبر ( 242 )۔اور اس میں سچی اور پکی توبہ کے علاوہ کوئی کفارہ نہیں۔واللہ اعلم بالصواب

    جواب نمبر: 148023

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 734-700/sn=7/1438

    استفتاء میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی طرف منسوب جو فتوی نقل کیا گیا ہے، ہمارے نزدیک وہ صحیح نہیں ہے، جس شخص کی کوئی فرض یا واجب نماز چھوٹ جائے یا قصدا سستی وتکاسل کی وجہ سے چھوڑدے اس پر اس کی قضاء شرعاً واجب ہے، چنانچہ البحر الرائق میں ہے: فالأصل فیہ أن کل صلاة فاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبہا فیہ فإنہ یلزم قضاوٴہا، سواء ترکہا عمداً أو سہواً أو بسبب نوم وسواء کانت الفوائت قلیلةً أو کثیرةً الخ (البحر الرائق: ۲/ ۱۴۰، ط: زکریا)

    یہ صرف امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نہیں؛ بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی قضاء کے نفسِ وجوب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ ہیں، یعنی ان تمام حضرات کے نزدیک عمداً کی صورت میں بھی قضا واجب ہے؛ ہاں تفصیلات میں ان حضرات ائمہ کے درمیان قدرے اختلاف ہے۔ (دیکھیں: المدونة الکبری: ۱/ ۴۴۳، باب شروط الصلاة، بیروت، فقہی مقالات: ۴/۱۳، ط: نعیمیہ) یہاں تک کہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی عمد کی صورت میں وجوبِ قضا کے سلسلے میں جمہور کے ساتھ ہیں چنانچہ فتاوی ابن تیمیہ میں ہے: ومن علیہ فائتة فعلیہ أن یبادر إلی قضائہا علی الفور سواء فاتتہ عمداً أو سہواً عند جمہور العلماء کمالک وأحمد وأبي حنیفة وغیرہم وکذلک الراجح في مذہب الشافعي أنّہا إذا فاتت عمدًا کان قضاوٴہا واجبًا علی الفور (فتاوی ابن تیمیہ: ۲۳/ ۲۵۹، ط: مجمع الملک، سعودی عربیہ)

    مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ شاملِ استفتاء فتوے میں جو یہ دعوی کیا گیا ہے کہ علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر اس کی قضا واجب نہیں ہے، یہ دعویٰ خلافِ حقیقت ہے اور عدمِ وجوب کا قول صحیح ہو بھی کیسے سکتا ہے جب کہ یہ بات طے ہے کہ جو چیز دلیل قطعی سے ثابت ہو، اس کے اسقاط کے لیے بھی کم ازکم اس درجے کی دلیل ضروری ہے اور زیر بحث مسئلے میں اسقاط کے لیے قطعی نص تو کجا کوئی کمزور نص بھی نہیں ہے۔ مذکور فی الاستفتاء فتوے میں سب سے بڑی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ عمداً ترکِ صلات کفر ہے اورکافر پر حالتِ کفر میں چھوڑے ہوئے کاموں کی قضا نہیں ہوتی، اس سلسے میں عرض ہے کہ اکر کوئی شخص سستی وکاہلی کی وجہ سے عمداً نماز ترک کردے جمہور علماء کے نزدیک وہ فاسق ہے کافر نہیں ہے، صرف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ایک روایت اور معدودے چند لوگوں کا یہ قول ہے کہ وہ کافر ہوجاتا ہے، ظاہر ہے کہ جمہور کے بالمقابل یہ قول شاذ اور مرجوح قرار پائے گا؛ لہٰذا یہ استدلال مرجوح اور نادرست ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: شرح مہذب: ۳/ ۱۶، فروع فی مذاہب العلماء، ط: دار الکفر، المغني: ۲/ ۲۹۸، ط: بیروت) عمداً ترک صلات کفر ہے، اس پر دلیل کے طور پر جن نصوص کا ذکر کیا گیا ہے، یہ استدلال انتہائی کمزور ہے؛ کیوں کہ شراح حدیث کے مطابق جمہور علماء کے نزدیک اس طرح کے نصوص اس صورت پر محمول ہیں جب کہ نماز ترک کرے اس بنا پر کہ وہ نماز کو فرض نہیں سمجھتا یا فرض تو سمجھتا ہے لیکن اس کے ساتھ استہزاء کرتا ہے یا پھر ان نصوص کے معنی یہ ہیں کہ جس شخص نے نماز عمداً ترک کیا اس نے کافروں والا عمل کیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: فتح الباری: ۲/ ۳۲،ط: دار المعرفة، مرقاة: ۲/ ۵۱۲،ط: دار الفکر) وغیرہ۔ اور فتوے میں یسر اور عسر کی جو بحث کی گئی ہے وہ بھی بے جوڑ اور نادرست ہے، کیوں کہ تمام نماز میں علی الفور قضاء کرنا واجب ہو ایسا نہیں؛ بلکہ آدمی حسب سہولت ادا کرے گا، اگر اخیر عمر تک نہ کرسکے تو فدیہ کی وصیت کرجائے اور یہ استدلال بھی صحیح نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام قبول کرنے والوں سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ وہ سابقہ نمازیں دہرائیں الخ یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ کفار حالت کفر میں فروع کے مخاطب ہی نہیں ہوتے؛ لہٰذا ان پر نماز فرض نہیں تھی تو مطالبہ کی بات بے محل ہے، الغرض اگر کوئی شخص عمداً یا سہواً نماز ترک کردے تو اس پر اس کی قضاء بہرحال واجب ہے؛ البتہ اگر کسی شخص نے بہت سی نماز یں عمداً یا سہواً چھوڑی ہے تو وہ اپنی معاشی تگ ودو کے ساتھ حسب سہولت تھوڑی تھوڑی قضا کرتا رہے، اگر بالفرض اخیر عمر تک ادا نہ کرسکے تو فدیہ کی وصیت کرجائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند