• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 146855

    عنوان: نابینا کی امامت

    سوال: غیر مقلدین فقہ حنفی کے اس مسئلے پہ اعتراض کرتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے ۔حدیث مبارکہ:نبی(ص) نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (رض) کو اپنا خلیفہ (امام) بنایا وہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے اور وہ \"نابینا\" تھے :(ابوداؤد:595)فقہ حنفی ------>(ویکرہ تقدیم العبد... والاعمی)\"نابینا\" آدمی کی امامت کو\"مکروہ\" سمجھا گیا ھے :(ھدایة:جلد1،صفحہ\124،سطر6+7 مکتبة رحمانیہ)۔برائے مہربانی اسکا مدلل جواب دیں۔

    جواب نمبر: 146855

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 312-327/M=3/1438

     

    نابینا اگر متقی پرہیزگار ہو اور پاکی صفائی کا پورا خیال رکھنے والا ہو تو اس کی امامت بلا کراہت درست ہے حدیث مذکور سے نابینا کی امامت کا جواز ثابت ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہدایہ کی عبارت میں اعمی کی امامت کو جو مکروہ لکھا ہے اس میں کراہت سے مراد تنزیہی ہے یعنی خلاف اولیٰ ہے او رجواز اور مکروہ تنزیہی کے مابین مغایرت نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ نابینا کی امامت جائز ہے البتہ اچھا نہیں، اور مکروہ تنزیہی کی وجہ یہ ہے کہ نابینا شخص بالعموم اپنی بصارت سے محروم ہونے کی وجہ سے بدن اور کپڑے کی طہارت و نظافت کا بہت زیادہ خیال نہیں رکھ پاتا اور نماز کے دوران قبلے سے بسا اوقات کچھ انحراف بھی ہو جاتا ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ نابینا کو امام نہ بنایا جائے لیکن اگر نابینا ایسا ہو جو دوسروں سے تقوی و طہارت میں آگے ہو تو ایسے شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استخلاف سے ثابت ہوتا ہے پس حدیث وفقہ حنفی کے مابین کوئی ٹکراوٴ نہیں ہے کرہ إمامة ․․․ الأعمی لأنہ لایتوقی النجاسة ولا یہتدی إلی القبلة بنفسہ ولا یقدر علی استیعاب الوضوء غالباً الخ (تبیین الحقائق للزیلعی: ۱/۱۳۴) وکرہ إمامة العبد والأعمی لعدم اہتدائہ إلی القبلة وصون ثیابہ عن الدنس، وإن لم یوجد أفضل منہ فلا کراہة (مراقی الفلاح ۱۶۴) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند