• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 146837

    عنوان: قضاء نماز کس وقت ادا کرنی چاہئے

    سوال: قضاء نماز کس وقت ادا کرنی چاہئے اور کیا سنتیں موٴکدہ کی جگہ قضا نماز ادا کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ کیا اذان فجر سے لے کر فرض نماز کی جماعت کے دوران بھی قضا نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ اور عصر کی نماز کے بعد بھی قضا نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ میں قضا نمازوں کا فدیہ ادا کرنا چاہتا ہوں اور ساتھ میں قضا نمازیں بھی ادا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے پتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد میری قضا نمازوں کا فدیہ کوئی ادا کرے گا نہیں۔

    جواب نمبر: 146837

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 234-206/N=4/1438

     

     (۱): طلوع، زوال اور غروب آفتاب کے علاوہ جس وقت چاہیں قضا نماز ادا کرسکتے ہیں۔ وجمیع أوقات العمر وقت القضاء إلا الثلاثة المنھیة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ۲:۵۲۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، قولہ:”إلا الثلاثة المنھیة“:وھي الطلوع والاستواء والغروب، ح (رد المحتار) ، والنظر الدر والرد (کتاب الصلاة، ۲: ۳۰-۳۲، ۳۴، ۳۷) أیضاً۔

     (۲):سنن موٴکدہ بھی پڑھی جائیں اور قضا نمازیں بھی، قضا نمازوں کی وجہ سے سنن موٴکدہ ترک نہ کی جائیں۔ والاشتغال بقضاء الفوائت أولی وأھم من النوافل إلا السنة المعروفة الخ کذا فی المضمرات عن الظھیریة وفتاوی الحجة، ومرادہ بالسنة المعوروفة الموٴکدة (حاشیة الطحطاوی علی المراقي، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ص، ۴۴۷ط: دار الکتب العلمیة بیروت) ، وانظر رد المحتار (۲: ۵۳۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) والفتاوی الھندیة (۱:۱۲۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند) وغیرھما أیضاً۔

     (۳، ۴): جی ہاں! فجر کے وقت اور عصر میں عصر کی نماز کے بعد بھی قضا نماز پڑھ سکتے ہیں؛ البتہ مسجد میں یا کسی ایسی جگہ نہ پڑھیں جہاں دوسروں کو قضا پڑھنے کا علم ہوجائے ؛ کیوں کہ یہ اظہار معصیت ہے، جو ممنوع ہے۔ وینبغي أن لا یطلع غیرہ علی قضائہ؛ لأن التأخیر معصیة فلا یظھرھا (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ۲: ۵۳۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، قولہ: ”وینبغي الخ “:تقدم في باب الأذان أنہ یکرہ قضاء الفائتة فی المسجد وعللہ الشارح بما ھنا من أن التأخیر معصیة فلا یظھرھا و ظاھرہ أن الممنوع ھو القضاء مع الاطلاع علیہ سواء کان فی المسجد أو غیرہ، قلت: والظاھر أن ینبغي ھنا الوجوب وأن الکراھة تحریمیة الخ (رد المحتار) ، وانظر الدر والرد (۲: ۵۸، ۵۹) والفتاوی الرحیمیة في واقعات السادة الحنفیة (ص ۸، الف، ب، مخطوطة) ۔

     (۵): زندگی میں نمازوں کا فدیہ ادا کرنا معتبر نہیں؛ اس لیے آپ صرف قضا نمازیں ادا کریں، ان کا فدیہ دینے کی ضرورت نہیں؛ البتہ آپ وارثین کو یہ وصیت کردیں کہ اگر وفات تک میں ساری نمازیں قضا نہیں پڑھ سکا تو میرے ترکہ سے ما بقیہ نمازوں کا فدیہ ادا کردیا جائے۔ اور جتنی نمازیں آپ کے ذمہ ہیں، وہ سب کسی ڈائری میں لکھ لیں اور جو نماز ادا کرلیں، اس کو ڈائری سے ختم کردیں تاکہ آپ کی وفات پر وارثین کے لیے ما بقیہ نمازوں کی صحیح تعداد جاننا اور ان کافدیہ ادا کرنا آسان رہے۔ ولو فدی عن صلاتہ في مرضہ لا یصح الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ۲:۵۳۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، وقولہ:”ولو فدی عن صلاتہ في مرضہ لا یصح “فی التاترخانیة عن التتمة:سئل الحسن بن علي فی الفدیةعن الصلاة في مرض الموت ھل تجوز؟ فقال: لا، وسئل أبو یوسف عن الشیخ الفاني ھل تجب علیہ الفدیة عن الصلوات کما تجب علیہ عن الصوم وھو حي؟ فقال: لا اھ وفی القنیة:ولا فدیة فی الصلاة حالة الحیاة بخلاف الصوم اھ۔الخ (رد المحتار) ، قولہ:” لا یصح“:فیجب علیہ الوصیة (حاشیة الطحطاوی علی الدر، ۱: ۳۰۸، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند