• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 1021

    عنوان:

    میں ہرہفتہ بنگلور سے اپنے وطن حیدرآباد جاتا ہوں‏، جماعت چھوٹ جانے پر قصر پڑھتا ہوں کیا یہ صحیح ہے؟

    سوال:

    (1) میں بنگلور میں کام کرتا ہوں اور ہر اگلے ہفتے کو اپنے وطن (حیدرآباد) جاتا ہوں۔میں خود کو مسافر سمجھتا ہوں اور اگر جماعت نہیں پاتا ہوں تو قصر پڑھتا ہوں۔ تقریباً ڈیڑھ سال سے میں ایسا کررہا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں صحیح کررہا ہوں؟ محض اس کی تصدیق کرنا چاہتا ہوں۔

    (2) آفس میں ہم لوگ ظہر کی نماز جماعت سے پڑھتے ہیں ،کیا امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ داڑھی رکھتا ہو اور جملہ سنتوں کا متبع ہو؟

    (3) اگر میں امامت کرتا ہوں تو صرف دو رکعت پڑھاتا ہوں اور دیگر مقیم حضرات سلام کے بعد اپنی اپنی چار رکعت پوری کرتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں شرح صدر نہ ہونے کی وجہ سے میں امامت سے کتراتا ہوں۔ میرے لیے بہتر کیا ہے؟ رہ نمائی فرمائیں۔

    (4) قصر میں کیا ہمیں فرض کے علاوہ جملہ سنن موٴکدہ و نفل نمازیں ادا کرنا چاہیے؟

    جواب نمبر: 1021

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى:  406/م = 402/م)

     

    (1) بنگلور اور حیدرآباد کے مابین مسافت سفر شرعی پائی جاتی ہے لہٰذا بنگلور میں پندرہ یوم یا اس سے زائد ٹھہرنے کی نیت نہیں ہوتی تو آپ کا طرزِ عمل درست ہے۔

    (2) جی ہاں! امام کے لیے جو اوصاف و شرائط مطلوب ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ امام مقدار مسنون سے ڈاڑھی کم نہ کرتا ہو اور متبع سنت ہو ھکذا في کتب الفقہ۔

    (3) اگر آپ قرآن صحیح پڑھتے ہیں، اپنی جماعت میں سب سے زیادہ مسائل نماز سے واقف ہیں اور کراہتِ امامت کی کوئی وجہ آپ میں نہیں پائی جاتی اور آپ شرعی مسافر بھی ہیں تو شرح صدر کے ساتھ قصر نماز پڑھائیں تردد کی کوئی بات نہیں، ایسی حالت میں آپ کی امامت درست ہے۔

    (4) اگر جلدی نہ ہو، قرار و سکون اور امن ہو تو مسافر کو فرض قصر کے علاوہ سنن و نوافل بھی ادا کرلینا چاہیے، در مختار میں ہے: ویأتي المسافر بالسنن إن کان في حال أمن وقرار وإلا لا یأتي بھا ھو المختار (شامي زکریا: 2/613)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند