• معاشرت >> اخلاق و آداب

    سوال نمبر: 65011

    عنوان: کیا ماں باپ کے ساتھ رہنے کے لیے بیوی کو مجبور کیا جاسکتا ہے؟

    سوال: ماں باپ حیات ہیں، ماں کی طبیعت خراہے پانچ مہینے سے ، میں خود ہی سعودی رہتاہوں اور ان کی عیادت کے لیے چار مہینے رہ کے آیا پر اب نوکری اور پیسے کے سوال کو لے کر میں پھر سعودی آگیا ہوں ، میں جب تک گھر پہ تھا تو میری بیگم سا تھ تھی اور میرے آتے ہی اس کی طبیعت خراب ہوگئی ، اس کے گھروالوں نے اس کو میرے گھر والوں سے پوچھ لے کر چلے گئے ، پہلے ہی سے اس کا میرے گھر والوں سے نہیں بنتا تھا ،وہ کہتی رہتی تھی کہ میں اکیلی ان لوگوں کے ساتھ نہیں رہوں گی ، آپ رہیں ساتھ میں تو مجھے کوئی پریشانی نہیں ، آپ سعودی تو میں یہاں اکیلی نہیں رہوں گی ، ابھی وہ ایک مہینے سے اپنے میکے ہے اور اور میرے گھروالے اسے بلانا چاہ رہے ہیں ، کیوں کہ ماں کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور کوئی کرنے والا نہیں ہے گھر پہ تو وہ کہتی ہے کہ میں نہیں جاؤں گی ان کی خدمت میرے اوپر لازم نہیں ، آپ دیکھیں یا آکے مجھے ساتھ لے جائیں میں اگر نوکری چھوڑ کے آگیا تو کھانے کے لالے پڑ جائیں گے، اب ایک طرف میرے ماں باپ ہیں اورایک طرف میری بیوی اور سب سے بڑامسئلہ پیسے کا ہے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنی بیوی کے ساتھ زبردستی کرسکتاہوں ماں باپ کے پاس اکیلے رہنے کے لیے؟ اس میں ٹینش یہ ہے کہ وہ کچھ بھی اپنا نقصان کرسکتی ہے ۔ براہ کرم ، مجھے صحیح راستہ دکھائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟تاکہ قیامت کے دن کوئی میرا دامن نہ پکڑے ؟

    جواب نمبر: 65011

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 657-657/Sd=8/1437 صورت مسئولہ میں اگر آپ کی اہلیہ آپ کے بغیر آپ کے گھر والوں کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں ہے، تو شرعا آپ کو اس پر مجبور کرنے کا حق نہیں ہے؛ لیکن اخلاق اور رشتہ کا تقاضہ یہ ہے کہ بیوی اپنی ساس کی خدمت کو سعادت سمجھے، خصوصا جب کہ اُن کو خدمت کی ضرورت بھی ہو، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی  عورتوں سے فرماتے ہیں: ”جب تک ساس خسر زندہ رہیں، اُن کی خدمت کو، اُن کی تابعداری کو فرض جانو اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہر گز فکر مت کروکہ ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کہ یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باب نے اسے پالا پوسا اور اب بڑھاپے میں اس آسرے پر اُس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ فکر کرنے لگی کہ ”میاں“ آج ہی ماں باپ کو چھوڑ دیں، پھر جب ماں کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیٹے کو ہم سے چھڑاتی ہے، تو فساد پھیلتا ہے“۔ (اختری بہشتی زیور، چوتھا حصہ، ص: ۴۰، ۴۱، میاں کے ساتھ نباہ کرنے کا طریقہ) آپ کو بھی چاہیے کہ حکمت، نرمی اور حسن تدبیر سے بیوی کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہیں اور جب تک وہ اپنی خوشی سے آپ کی غیر موجود گی میں آپ کے گھر رہنے پر آمادہ نہیں ہے، اُس پر زور زبردستی نہ کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند