• معاشرت >> اخلاق و آداب

    سوال نمبر: 609148

    عنوان:

    استاد کے احترام میں طلباء کا کلاس روم میں کھڑے ہونا

    سوال:

    میں ایک ٹیچر ہوں اور ایک حدیث پڑھنے میں آئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ "جو یہ چاہے کہ لوگ اس کے سامنے (باداب) کھڑے ہو ں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے ۔(ابو داؤد5229 صحیح)، سوال یہ ہے کہ کیا کلاس میں جو بچے ہمارے آمد پر احتراماً کھڑے ہوجاتے ہیں وہ صحیح ہے یا اس حدیث کے مطابق غلط؟ ہمارے ساتھی دوست بچوں کے کھڑے ہونے کو صحیح بتاتے ہیں، اسی طرح جب ہمارے پرنسپل صاحب ہمارے سامنے آتے ہیں تو ہم کو بھی ان کے ادب میں کھڑے ہونا ہوتا ہے ۔اس معاملے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔شکریہ

    جواب نمبر: 609148

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:380-131/TD-Mulhaqa=6/1443

     آپ نے جو حدیث نقل کی ہے، اس سے مراد وہ صورت ہے کہ ایک شخص بیٹھا رہے اور لوگ اس کے سامنے کھڑے رہیں ، حدیث کی رو سے یہ صورت ممنوع ہے ، اسی طرح اگر کسی شخص کی چاہت اور خواہش ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں ؛ یہ بھی صحیح نہیں ہے، باقی اگر کلاس میں استاد کے آنے پر بچے احتراماکھڑے ہوجائیں یا پرنسپل صاحب کے آنے پر استاد اکراماکھڑے ہوجائیں تو راجح قول کے مطابق اس میں مضائقہ نہیں۔

    قال الحصکفی: وفی الوہبانیة: یجوز بل یندب القیام تعظیما للقادم کما یجوز القیام، ولو للقارء بین یدی العالم۔ قال ابن عابدین: (قولہ یجوز بل یندب القیام تعظیما للقادم إلخ) أی إن کان ممن یستحق التعظیم قال فی القنیة: قیام الجالس فی المسجد لمن دخل علیہ تعظیما، وقیام قارء القرآن لمن یجیء تعظیما لا یکرہ إذا کان ممن یستحق التعظیم، وفی مشکل الآثار القیام لغیرہ لیس بمکروہ لعینہ إنما المکروہ محبة القیام لمن یقام لہ، فإن قام لمن لا یقام لہ لا یکرہ. قال ابن وہبان أقول: وفی عصرنا ینبغی أن یستحب ذلک أی القیام لما یورث ترکہ من الحقد والبغضاء والعداوة لا سیما إذا کان فی مکان اعتید فیہ القیام، وما ورد من التوعد علیہ فی حق من یحب القیام بین یدیہ کما یفعلہ الترک والأعاجم اہ. قلت: یوٴیدہ ما فی العنایة وغیرہا عن الشیخ الحکیم أبی القاسم کان إذا دخل علیہ غنی یقوم لہ ویعظمہ، ولا یقوم للفقراء وطلبة العلم فقیل لہ فی ذلک، فقال الغنی یتوقع منی التعظیم، فلو ترکتہ لتضرر والفقراء والطلبة إنما یطمعون فی جواب السلام والکلام معہم فی العلم، وتمام ذلک فی رسالة الشرنبلالی۔ ( الدر المختار مع رد المحتار: ۳۸۴/۶، دار الفکر، بیروت ، ) قال السہارنبوری : قال الشیخ فی "اللمعات" : قد ادعی بعضہم أن القیام للداخل سنة، واحتجوا بہذا الحدیث، وذہب بعضہم إلی أنہ مکروہ منہی عنہ لما ثبت من حدیث أنس (۴) رضی اللہ عنہ من کراہتہ - صلی اللہ علیہ وسلم - قیام الصحابة لہ، فقد یحتج علی جواز القیام بما روی من قیامہ - صلی اللہ علیہ وسلم -لعکرمة بن أبی جہل حین قدم، وبما روی عن حدیث ابن حاتم: "ما دخلت علی رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - إلا قام أو تحرک"، وفیہ کلام کثیر ،وصرح بندبہ "الشامی" (۹/ ۵۵۱)، وجعل العینی (۱۵/ ۳۷۶) القیام علی أربعة أوجہ، وبسط الحافظ (۱۱/ ۵۱، ۵۲) الکلام علی روایات الباب إثباتا ونفیا أشد البسط، وبسط شیئا منہ شراح "الشمائل" (۲/ ۱۳۵) وحکوا ندب القیام عن النووی وابن حجر المکی، وعن القاضی عیاض: أن المنہی عنہ ما إذا قاموا وہو جالس.والصحیح أن احترام أہل الفضل من أہل العلم والصلاح والشرف بالقیام جائز، وفی "مطالب الموٴمنین": لا یکرہ قیام الجالس لمن دخل تعظیما، والقیام لیس مکروہا لعینہ، وإنما المکروہ محبة القیام لمن الذی یقام لہ، وما جاء من کراہتہ - صلی اللہ علیہ وسلم - قیام الصحابة لہ فہو من جہة الاتحاد الموجب لرفع التکلف لا للنہی.( بذل المجہود: ۶۰۳/۱۳، مرکز الشیخ أبی الحسن الندوی للبحوث والدراسات الإسلامیة، الہند، نیز دیکھیں:امداد الفتاوی : ۴۳۱/۹ تا ۴۳۴، جدید ، تکملة فتح الملہم :۱۰۶/۳، ۱۰۷، دار احیاء التراث العربی، بیروت ، فتاوی عثمانی : ۲۹۶/۱، کراچی )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند