• معاشرت >> اخلاق و آداب

    سوال نمبر: 59588

    عنوان: کیا بیٹے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے منصوبے جیسے زمین کی خریدنا، گھر بنانا وغیرہ کے بارے میں اپنے والدین کو بتائے؟

    سوال: ہماری سوسائٹی میں مشترکہ خاندانی نظام ہے جس کی وجہ سے شادی شدہ بیٹے کو اپنے والدین اور دوسرے افراد خانہ کے ساتھ رہنا پڑتاہے، مگر کچھ گھروں میں بہو کی اہمیت کم ہوجاتی ہے اور گھروالے اس کے خلاف ہوجاتے ہیں اور بیٹا بھی زد میں آجاتاہے جس سے گھر میں تناؤ پیدا ہوجاتاہے۔کبھی کبھار حالات اتنے خراب اور پرتشدد ہوجاتے ہیں کہ شادی شدہ بیٹے کو گالی گلوچ ، لعن طعن کرتے ہوئے گھر چھوڑنے کے لیے کہا جاتاہے ، اس حقیقت کے باوجود کہ بیٹا وفادار اور فرمانبردار ہوتاہے اور والدینے کی بات مانتاہے۔ میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ کیا وہ بیٹا عند اللہ مجرم ہوگا اپنے والدین سے ملاقات نہ کرنے پر جب کہ والدین بھی اس بیٹے سے ملاقات کرنے پر راضی نہ ہوں؟ نیز گھر پہ والدین سے خطرہ ہو یعنی اس پر حملہ ہوسکتا ہو خاص طورپر بھائی کی طرف سے جو ناچاقی پیدا کرنے میں اہم رول ادا کررہا ہے تاکہ جائداد کو ہڑپ کرلے کیوں کہ گھرانہ مالدار ہے۔ (۲) کیا بیٹے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے منصوبے جیسے زمین کی خریدنا، گھر بنانا وغیرہ کے بارے میں اپنے والدین کو بتائے؟جب کہ وہ کسی کی مالی مدد کے بغیر صرف اپنی خراب مالی حالت پر زندگی گذاررہا ہو؟

    جواب نمبر: 59588

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 732-728/B=8/1436-U (۱) اگر بیٹا فرمانبردار اور ماں باپ کا وفادار ہے پھر بھی اسے گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا ہو تو اس کے اوپر کوئی گناہ نہیں، جن بھائیوں نے جائداد کے لالچ میں ایسی حرکت کی ہے اور والدین کو بھی اپنے فیور میں لے لیا ہے، وہی بھائی لوگ گنہ گار ہوں گے۔ (۲) جب اسے گھر سے نکال ہی دیا گیا ہے تو اپنا مستقبل بنانے کے لیے اپنی ذاتی کمائی سے زمین خرید سکتا ہے اور مکان بھی سرچھپانے کے لیے بنواسکتا ہے، والد صاحب سے اجازت لینا اور ان سے پیسوں کی درخواست کرنا اچھی بات ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند