معاشرت >> اخلاق و آداب
سوال نمبر: 52822
جواب نمبر: 52822
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 837-835/N=7/1435-U شوہر کی وجہ سے عورت کے ساس سسر والدین کے حکم میں ہوتے ہیں اور بہو بیٹی کے درجہ میں ہوتی ہے؛ اس لیے عورت کو چاہیے کہ حسب ہمت وطاقت اپنے حقیقی ماں باپ اور شوہر کی طرح ساس سسر کی بھی خدمت کرے، یہ درحقیقت شوہر کی خدمت کا حصہ ہے اوراخلاقی تقاضہ ہے البتہ شرعی اعتبار سے عورت پر ساس سسر کی خدمت نہ قضاءً واجب ہے اور نہ دیانتاً، صرف شوہر کی خدمت دیانتاً واجب ہے؛ لہٰذا اگر وہ ساس سسر کی خدمت کے لیے راضی نہ ہو تو شوہر اسے اس پر مجبور نہیں کرسکتا۔ اوراگر وہ اپنی مرضی وخوشی سے ساس سسر کی خدمت کرے تو سسر کی کوئی جسمانی خدمت نہ کرے ورنہ شوہر سے اس کو رشتہ خراب ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اور ساس سسر کو بھی چاہیے کہ بہو کو بیٹی کی طرح رکہیں اور اس کی معمولی غلطیوں کو نظر انداز کردیا کریں، اور اگر کسی بات پر تنبیہ کرنا ہو تو محبت وشفقت کے ساتھ تنبیہ کریں، اگر وہ ایسا کریں گے تو ان شاء اللہ گھر کا ماحول عمدہ ہوگا اور ساس بہو کے جھگڑوں سے محفوظ رہے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند