معاشرت >> اخلاق و آداب
سوال نمبر: 16179
میرا
سوال یہ ہے کہ ایک طرف اسلام کہتاہے کہ اگر بیوی چاہے تو اسے الگ گھر لے دو۔ دوسری
طرف یہ کہتاہے کہ کسی حال میں بھی تم لوگوں نے اپنے ماں باپ کو تنہا نہیں چھوڑنا۔
ظاہر سی بات ہے جب بیوی کو الگ گھر لے کر دیا تو پھر جہاں بیوی ہوگی وہیں شوہر بھی
ہوگا۔ ماں باپ کو تو پھر چھوڑنا پڑے گا۔ آج کل اتنا وقت تونہیں ہے کہ بیوی کے ساتھ
الگ گھر میں رہتے ہوئے وہ ماں باپ کو بھی وقت دے سکے۔
میرا
سوال یہ ہے کہ ایک طرف اسلام کہتاہے کہ اگر بیوی چاہے تو اسے الگ گھر لے دو۔ دوسری
طرف یہ کہتاہے کہ کسی حال میں بھی تم لوگوں نے اپنے ماں باپ کو تنہا نہیں چھوڑنا۔
ظاہر سی بات ہے جب بیوی کو الگ گھر لے کر دیا تو پھر جہاں بیوی ہوگی وہیں شوہر بھی
ہوگا۔ ماں باپ کو تو پھر چھوڑنا پڑے گا۔ آج کل اتنا وقت تونہیں ہے کہ بیوی کے ساتھ
الگ گھر میں رہتے ہوئے وہ ماں باپ کو بھی وقت دے سکے۔
جواب نمبر: 16179
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل):1672=359tl-11/1430
والدین کے ساتھ سونے اور مستقل طور پر رہنے کا حکم نہیں ہے بلکہ ان کی خبرگیری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے، یہ چیز تھوڑے وقت میں بھی حاصل ہوسکتی ہے، آدمی کچھ وقت ان کے پاس دیا کرے اور ان کے احوال کی خبرگیری کرے، اگر ان کو کوئی حاجت ہو تو اسے پوری کرلے، بہرحال دونوں کی رعایت ممکن ہے، شریعت نے آدمی کو اس چیز کا مکلف ہی نہیں بنایا ہے جو اس کے بس سے باہر ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند