معاشرت >> اخلاق و آداب
سوال نمبر: 153689
جواب نمبر: 153689
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1316-1367/N=1/1439
(۱): شادی شدہ یا غیر شادی شدہ اولاد اپنی ذاتی محنت یا سرمائے سے جو کچھ کماتی ہے، وہ صرف اولاد کاہوتا ہے، اس میں ماں باپ کا مالکانہ کوئی حق وحصہ نہیں ہوتا؛ اس لیے والدین اولاد سے اس کی ذاتی کمائی زبردستی نہیں لے سکتے؛ البتہ اگر اولاد اپنی مرضی وخوشی سے والدین کی خدمت میں کچھ پیش کرے تواس میں کچھ حرج نہیں؛ بلکہ اولاد کو حسب استطاعت وسہولت کچھ نہ کچھ والدین کی مالی خدمت بھی کرنی چاہیے اگرچہ وہ بہ ظاہر ضرورت مند نہ ہوں۔
(۲): والدین اولاد کی شادی میں جو کچھ خرچ کرچکے، وہ اولاد سے زبردستی وصول نہیں کرسکتے؛ البتہ اولاد کو حسب استطاعت والدین کی مالی خدمت کرنی چاہیے؛ تاکہ وہ اپنی اور دیگر بچوں کی ضروریات بآسانی پوری کرسکیں۔
(۳،۴): جب والدین صاحب ثروت اور مال دار ہیں تو اولاد پر ان کا نان ونفقہ واجب نہیں؛ البتہ جو اولادبر سر روز گار ہو، اسے حسب استطاعت کچھ نہ کچھ والدین کی مالی خدمت کرتے رہنا چاہیے۔
(۵): جب لڑکا والدین کے مکان میں رہ رہا ہے تو حسب استطاعت اسے ماں باپ کی مالی خدمت بھی کرنی چاہیے۔ اور اگر والدین مکان کی تنگی کی وجہ سے یا مکان کا کچھ حصہ کرایہ پر دینے کے لیے کسی شادی شدہ اولاد کو دوسری جگہ کرایہ کی رہائش اختیار کرنے کے لیے کہیں تو اولاد کو والدین سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے ؛ کیوں کہ جب اولاد خود کھانے کمانے کے لائق ہوجائے تو باپ کے ذمہ اس کا نان ونفقہ اور رہائش کا انتظام واجب نہیں رہتا۔
(۶): سوال میں ماں باپ کا بیان نہیں لکھا گیا ہے، ماں باپ اولاد کی کن کن باتوں کو ناگوار سمجھتے ہیں؟ وہ سب والدین کی طرف سے سامنے آنی چاہیے، اس کے بعد ہی یہ واضح کیا جاسکتا ہے کہ صورت مسئولہ میں اولاد ماں باپ کی شرعاً نافرمان شمار ہوگی یا نہیں؟ ویسے والدین کا اولاد کو عاق کرنا شریعت کی نظر میں غیر معتبر ہے، یعنی: والدین نے اگر کسی اولاد کو عاق کردیا تو ماں باپ کی وفات پر دیگر اولاد کی طرح عاق کی ہوئی اولاد بھی وراثت کی حق دار ہوگی اور ماں باپ عاق کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوں گے؛ کیوں کہ نافرمان اولاد کو بھی عاق کرنا جائز نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند