معاشرت >> اخلاق و آداب
سوال نمبر: 153334
جواب نمبر: 153334
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1171-1282/N=12/1438
(۱): جی نہیں! سلام کا جواب، سلام مکمل ہونے کے بعد فوراً دینا چاہیے، اور اگر کبھی غفلت کی وجہ سے فوراً جواب نہیں دے سکا تو تنبہ کے بعد فوراً جواب دیدے۔
(۲): جو شخص ذکر میں مشغول ہو، اسے سلام کرنا مکروہ ہے اور ایسے سلام کا جواب بھی واجب نہیں ہوتا؛ اس لیے اگر ذکر میں مشغول کسی شخص کو سلام کیا گیا تو ذکر روک کر یا ذکر سے فارغ ہوکر سلام کا جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کوئی شخص ذکر سے فارغ ہوکر سلام کرنے والے کے سلام کا جواب دیدے اور آئندہ کے لیے اسے مسئلہ بتادے تو اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں۔
فیکرہ السلام علی مشتغل بذکر اللہ تعالی بأي وجہ کان، رحمتي (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب مایفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، ۲:۳۷۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وقد نظم الجلال السیوطي المواضع التي لا یجب فیھا رد السلام ونقلھا عنہ الشارح في ھامش الخزائن فقال: رد السلام واجب إلا علی من فی الصلاة أو ……قراء ة أو أدعیة أو ذکر الخ (المصدر السابق، ص ۳۷۶)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند