• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 62441

    عنوان: غنی کی اولاد جب بڑے کاروباری ہو اس پر کن کن صورتوں میں قربانی لازم ہے اور کن کن میں نہیں ہے ؟

    سوال: ہماسوال یہ ہے کہ غنی کی اولاد جب بڑے کاروباری ہو اس پر کن کن صورتوں میں قربانی لازم ہے اور کن کن میں نہیں ہے ؟ براہ کرم ،اگر مفصل اورمدلل جواب ممنون فرمائیں۔

    جواب نمبر: 62441

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 158-155/N=3/1437-U قربانی یا زکوة کے وجوب میں ہر عاقل وبالغ کی الگ الگ ملکیت کا اعتبار ہوتا ہے، پس غنی کی عاقل وبالغ اولاد میں جو صاحب نصاب ہو، یعنی: جس اولاد کے پاس سونا، چاندی، کرنسی، مال تجارت اور حوائج اصلیہ سے زائد کوئی بھی مال دین منہا کرنے کے بعد - اگر دین ہو-چاندی یاسونے میں سے کسی ایک کے نصاب کے برابر ہو، اس پر قربانی واجب ہوگی اور جو صاحب نصاب نہ ہو اس پر قربانی واجب نہ ہوگی۔ اور اگر اولاد باپ کے ساتھ کاروبار میں محض معاون ومددگار ہے تو سارا کاروبار باپ کا ہوگا، اور اگر شریک ہے تو کاروبار میں ان کے شرکت کے بقدر کاروبار کی مالیت مد نظر رکھ کر ان کے صاحب نصاب ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا، اور اگر وہ باپ کے کاروبار میں ماہانہ تنخواہ پر محض ملازم ہیں تو ان کی ذاتی آمدنی اور سرمایہ وغیرہ کا اعتبار ہوگا، الحاصل غنی کی بالغ اولاد باپ کی ملکیت کی وجہ سے صاحب نصاب شمار نہ ہوگی؛ بلکہ خود ان کی اپنی اپنی ملکیت کا اعتبار ہوگا۔ اور غنی کی جو اولاد نابالغ ہو اس پر مفتی بہ قول کے مطابق قربانی واجب ہی نہیں، نہ خود اس کے مال میں اور نہ اس کی طرف سے باپ پر باپ کے مال میں؛ کیوں کہ نابالغ غیر مکلف ہوتا ہے، اور جو اولاد عاقل نہ ہو؛ بلکہ مجنون وپاگل ہو، وہ بھی غیر مکلف ہے، اس پر بھی قربانی واجب نہ ہوگی قال في رد المحتار (کتاب الزکاة، باب المصرف ۳: ۲۹۹ ط مکتبة زکریا دیوبند) : الطفل یعد غنیاً بغنی أبیہ بخلاف الکبیر فإنہ لا یعد غنیاً بغنی أبیہ اھ، و فی الدر (مع الرد، کتاب الأضحیة ۹: ۴۵۲) : وشرائطھا الإسلام والإقامة والیسار الذي یتعلق بہ وجوب صدقة الفطر اھ وفی الرد: قولہ: ”والیسار الخ“ : بأن ملک مائتي درھم أو عرضاً یساویھا غیر مسکنہ وثیاب اللبس أو متاع یحتاجہ إلی أن یذبح الأضحیة الخ، وفی الدر (مع الرد ص ۴۵۸، ۴۵۹منہ: ویضحي عن ولدہ الصغیر من مالہ صححہ فی الھدایة وقیل: لا صححہ فی الکافي، قال: ولیس للأب أن یفعلہ من مال طفلہ، ورجحہ ابن الشحنة، قلت: وھو المعتمد لما في متن مواھب الرحمن من أنہ أصح ما یفتی بہ، وعللہ فی البرھان بأنہ إن کان المقصود الإتلاف فالأب لا یملکہ في مال ولدہ کالعتق أو التصدق باللحم فمال الصبي لا یحتمل صدقة التطوع وعزاہ للمبسوط فلیحفظ اھ وفی الرد: قولہ: ”ویضحي عن ولدہ الصغیر من مالہ“ : أي: من مال الصغیر ومثلہ المجنون، ……، قولہ: ”قلت: وھو المعتمد“ : واختارہ فی الملتقی حیث قدمہ وعبر عن الأول بقیل ورجحة الطرسوسي بأن القواعد تشھد لہ ولأنھا عبادة ولیس القول بوجوبھا أولی من القول بوجوب الزکاة في مالہ اھ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند