• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 607766

    عنوان:

    اگر دو آدمی ذبح میں شریک ہوں تو کیا دونوں کے لیے بسم اللہ پڑھنا لازم ہے ؟

    سوال:

    اگر کسی جانور کے ذبح کرنے میں دو آدمی شریک ہیں ایک نے بسم اللّٰہ پڑھی اور دوسرے نے یہ سمجھ بسم اللہ ترک کردیا کہ ایک بسم اللّٰہ کافی ہے اور دونوں کے بسم اللّٰہ پڑھنے کی شرط اس کے علم میں نہیں تھی تو ذبیحہ حلال ہوگا یا نہیں ؟ بعض فقہی عبارات سے ذبیحہ کا حرام ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ جیساکہ قاضی خان میں ہے : رجل أراد أن یضحی فوضع صاحب الشاة یدہ مع ید القصاب فی المذبح وأعانہ علی الذبح حتی صارا ذابحا مع القصاب . قال الشیخ الامام - رحمہ اللہ تعالیٰ - یجب علی کل واحد منہما التسمیة حتی لوترک أحدہما التسمیة ،لاتحل الذبیحة ، وکذا لوعلم صاحب الشاة أن التسمیة شرط الا أنہ ظن أن تسمیة أحدہما تکفی لایحل أکلہ . ( قاضی علی الہندیة قدیم : /۳ ۳۵۵، کتاب الاضحیة ،فصل فی مسائل متفرقة ) یہ عبارت ہندیہ، درمختار ، سکب الانہر، حاشیة ابو السعود علی شرح الکنز وغیرہ دیگر کتب فقہ میں بھی موجود ہے ۔ جبکہ بعض عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبیحہ حلال ہے ۔ مثلا بزازیة میں ہے : وذکر السرخسی : من کان ذاکرا للتسمیة لکن لایعلم أنہا شرط الحل وترک فہو فی معنی الناسی . ( البزازیة : /۲ ۴۲۸، کتاب الذبائح ، الثانی : فی التسمیة ،دارالکتب العلمیة بیروت) بنایہ شرح الہدایہ میں ہے : أما لو ترکہا من لم یعلم باشتراطہا فہو فی حکم الناسی. ذکرہ فی الحقائق. ( البنایة : ۵۳۶/۱۱، کتاب الذبائح ،حکم أکل متروک التسمیة، دار الکتب العلمیة - بیروت، لبنان) اسی طرح رد المحتار علی الدر المختار دارالفکر : /۶ ۲۹۸، و ۲۹۹، زکریا دیوبند : /۹ ۴۳۱، و ۴۳۴ ،کتاب الذبائح میں بھی علامہ نے اس مسئلہ بحث کیا ہے ۔ نیز علامہ ہاشم سندھی علیہ الرحمہ کی " فاکہة البستان فی مسائل ذبح وصید الطیر والحیوان " نامی کتاب میں بھی اس مسئلہ پر " مطلب : فی ترک التسمیة جاہلا " کے عنوان سے مختلف کتب فقہ کے حوالہ سے بحث موجود ہے اور وہاں انہوں نے لکھا ہے کہ گویا کہ اس مسئلہ میں دو قول ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کون سا قول راجح اور مفتی بہ ہے امید ہے کہ جواب مدلل ومفصل عنایت فرمائیں گے ۔ نیز صاحب بزازیہ نے علامہ سرخسی کے حوالہ سے جو مسئلہ تحریر فرمایاہے یہ عبارت علامہ سرخسی کی کس کتاب میں ہے نشاندہی فرماکر ممنون و مشکور ہوں ۔

    جواب نمبر: 607766

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:469-119/D=5/1443

     زیر بحث مسئلے سے متعلق مفصل عبارتیں دیکھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ قاضی خاں وغیرہ میں جو بات لکھی ہے ، وہی راجح ہے ، ایک تو اس لیے کہ فتاوی قاضی خاں خود کتب معتبرہ میں سے ہے یہ وقت اختلاف وہ مرحج بننے کے منزلے میں ہے، نیز زیادہ تر فقہا نے اسی قول کو ذکر کیا ہے، علامہ شامی نے جو بحث فرمائی ہے ، اس سے بھی یہی لگتا ہے کہ جو از کا قول محل تامل ہے ؛ کیوں کہ مسائل شرعیہ میں ”جہل“ عذر نہیں ہے ۔ علامہ ہاشم سندھی نے بھی بزاز یہ والی عبارت کے بعد قاضی خاں کی عبارت نقل کی ہے ( فاکہة البستان: ۸۲،۸۱ ) مبسوط سرخسی میں بزاز یہ کی ذکر کر دو عبارت ہمیں نہیں ملی، ممکن ہے یہ عبارت ان کی کسی اور کتاب میں ہو ، مبسوط میں ”صید“ پر تسمیہ کے ذکر کے تحت درج ذیل عبارت آئی ہے ، جس سے معلوم ہو تا ہے کہ محض ظنِ حِل، شر عاذ ذبیحہ کے حلال ہونے کے لیے کافی نہیں ہے ۔

    وعلی ہذا لو أضجع شاة وأخذ السکین وسمی ثم ترکہا وذبح شاة أخری، وترک التسمیة علیہا لا یحل، ولو رمی سہما إلی صید وسمی فأصاب صیدا آخر أو أخذ سکینا، وسمی ثم ترکہا وأخد سکینا أخری أو أرسل کلبہ إلی صید وسمی، وترک ذلک الصید وأخذ غیرہ حل، وکذلک لو ذبح تلک الشاة ثم ذبح شاة أخری بعدہا فظن أن تلک التسمیة تکفیہ لا یحل (المبسوط للسرخسی ۱۱/ ۹۳۲)

    علامہ شامی کی پوری عبارت درج ذیل ہے :

    قولہ فإن ترکہا ناسیا حل، قدمنا عن الحقائق والبزازیة أن فی معنی الناسی من ترکہا جہلا بشرطیتہا، واستشکل بما فی البزازیة وغیرہا: لو سمی وذبح بہا واحدة ثم ذبح أخری وظن أن الواحدة تکفی لہا لا تحل أقول: یمکن أن یفرق بین غیر العالم بالشرطیة أصلا وبین العالم بہا بالجملة، فیعذر الأول دون الثانی لوجود علمہ بأصل الشرطیة، علی أن الشرط فی التسمیة الفور کما یأتی ویذبح الأولی انقطع الفور فی الثانیة مع علمہ بالشرطیة تأمل، لکن ذکر فی البدائع أنہ لم یجعل ظنہ الإجزاء عن الثانیة عذرا کالنسیان لأنہ من باب الجہل بحکم الشرع وذلک لیس بعذر، بخلاف النسیان کمن ظن أن الأکل لا یفطر الصائم فلیتأمل (الدر المختار مع رد المحتار: 9/ 434، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند، الہند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند