عبادات >> ذبیحہ وقربانی
سوال نمبر: 605845
اگر کوئی غریب 10 ذی الحجہ سے پہلے کوئی جانور خریدے اور پھر کسی مجبوری سے بیچ دے تو یہ درست ہوگا یا نہیں؟ نیز کیا صرف خریدنے سے قربانی واجب ہوجائے گا یا ایام نحر میں خریدنے سے قربانی واجب ہوجائے گی؟
جواب نمبر: 605845
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1025-343T/SN=12/1442
اس سلسلے میں راجح یہی ہے کہ ایام نحر میں خریدنے سے غریب پر قربانی واجب ہوگی، پہلے خریدنے سے نہیں۔ حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ نے بھی متعدد فتاوی میں یہی بات تحریر فرمائی ہے، نیز بعض دیگر کبارِ مفتین نے بھی یہی بات لکھی ہے۔ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند سے بھی یہ حکم تحریر کیا جاتا ہے۔ سابق میں جاری شدہ ایک فتوی ارسال ہے، اسے ملاحظہ فرمالیں۔
--------------------------------
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:
شراء الفقیر بنیة التضحیة موجب قربانی ہے، فقہ حنفی کی معتبر کتابوں میں مثلاً بدائع الصنائع (4/202)، عالمگیری (5/294)، البحر الرائق (8/175)، النہر الفائق، المحیط البرہانی (6/472) اسی طرح اُردو کتابوں میں مثلاً بہشتی زیور (3/129) احسن الفتاوی وغیرہ میں یہ مسئلہ مطلقاً بیان کیا گیا ہے (یعنی اس میں قبل ایام النحر یا فی ایام النحر کی قید نہیں ہے) صرف تاتارخانیہ میں اس قید کو (فی ایام النحر) ذکر کیا گیا ہے اور وہاں سے صاف ردالمحتار (9/465) نے اس قید کو نقل کیا لیکن انہوں نے اخیر میں فرمایا: ولم أرہ صریحا فلیراجع (فیہ مالا یخفی) اور صاحب احسن الفتاوی نے تاتارخانیہ کی عبارت میں چند مناسب تاویلیں کرکے فرمایا کہ بشراء الفقیر مطلقاً واجب ہے خواہ ایام نحر سے پہلے ہو یا ایام نحر کے اندر (احسن الفتاوی: 7/529) نیز جب نذر حقیقی مطلقاً موجب ہے تو شراء الفقیر جو کہ نذر معنوی ہے یہ بھی مطلقاً موجب ہو لیکن فتاوی دارالعلوم (15/520) اور اسی کے حوالہ سے فتاوی رحیمیہ میں نقل کیا گیا ہے شراء الفقیر ایام نحر سے پہلے موجب نہیں ہے اور اگر ایام نحر کے اندر ہو تو موجب ہے۔
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ واضح فرمائے کہ مسئلہ کی اصل صورت کیا ہے، آیا اس مسئلے میں فقہاء کی دو رائے ہے یا کچھ اور؟
Fatwa : 171-150/SN=02/1437
آپ کی بات صحیح ہے کہ یہ مسئلہ عربی اُردو کی اکثر کتب فقہ و فتاوی میں مطلقاً لکھا گیا ہے، جس کا متبادر مفہوم یہی ہے کہ اگر کسی غیر صاحب نصاب نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا تو اس کی قربانی اس پر بہرحال واجب ہے خواہ ایام اضحیہ سے پہلے خریدا ہو یا ایام اضحیہ میں، عربی کتب فقہ میں سے صرف ”تاتارخانیہ“ میں ایام اضحیہ کی قید ملتی ہے، اسے علامہ شامی رحمہ اللہ نے بھی نقل کرکے تردد کا اظہار فرمایا؛ لیکن دوسری طرف اکابر ارباب افتاء میں سے حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی رحمہ اللہ نے فتاوی دارالعلوم دیوبند میں دو مقامات (15/500، سوال: 43، 15/520, سوال: 90) پر ایام اضحیہ کی قید کے ساتھ یہ مسئلہ ذکر کیا ہے، نیز عزیز الفتاوی (ص: 720، سوال: 307) میں بھی ایک جواب اس قید کے ساتھ مذکور ہے اور عزیز الفتاوی کے مرتب حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے اس پر کوئی حاشیہ یا استدراک بھی تحریر نہیں فرمایا، اسی طرح فتاوی محمودیہ (17/315، سوال: 8385، ط: ڈابھیل) میں بھی یہ مسئلہ ایام اضحیہ کے ساتھ مقید کرکے لکھا گیا؛ ان اکابر کے فتاوی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات نے ”تاتارخانیہ“ کی عبارت ہی کو ترجیح دی ہے اور دیگر مطلق عبارات کو اس پر محمول کیا ہے اور دارالافتاء دارالعلوم دیوبند سے بھی فتاوی دارالعلوم، عزیز الفتاوی اور فتاوی محمودیہ کے مطابق ہی فتوی دیا جاتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند