عبادات >> ذبیحہ وقربانی
سوال نمبر: 605562
مدارس میں حصہ كی رقم متعین كركے جو اجتماعی قربانی كی جاتی ہے اس كا كیا حكم ہے؟
ذی قاعدہ کا چاند دیکھتے ہی مدرسوں میں اشتہار لگا دیے جاتے ہیں اور اشتہار میں قربانی کے جانور کا جوحصہ ہوتا ہے وہ کھول دیا جاتا ہے جیسے فی حصہ 2000 سے 2500 وغیرہ لیکن ابھی قربانی کا جانور خریدا بھی نہیں گیا اور نہ ہی سودا ہوا اور نہ جانور دیکھا لیکن حصہ داروں سے پیسے لے لے جاتے ہیں اور ذلحج کا چاند دیکھنے کے بعد جانور خریدنے جاتے ہیں کئی بار ایسا ہوتا ہے کی مال کم ہوتا ہے اور حصہ دار زیادہ اس طرح کی قربانی کرنا جائز ہے یا نہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔
جواب نمبر: 605562
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1122-775/D=12/1442
اگر مدرسہ والے کے پاس جانور موجود ہے پھر ایک حصہ دو ہزار ڈھائی ہزار کا اعلان کرتے ہیں تو یہ شکل بیع کی ہوئی جس میں بیع کی شرائط پایا جانا ضروری ہے یعنی مشتری کے لئے مبیع معلوم اور متعین ہو اور ایک ہی شخص خریدنے بیچنے دونوں کا ذمہ دار نہ بنے۔
اور اگر جانور موجود نہیں ہے تو یہ شکل حصہ لینے والے کی طرف سے توکیل بالتضحیہ کی ہے یعنی مدرسہ والے کو قربانی کرنے کا وکیل بنا رہا ہے لہٰذا اس کی ذمہ داری ہے کہ امانت داری کے ساتھ جتنے کا جانور ملے ا س کے حصے کی قیمت اس کے ذمہ ڈالے نیز خود اپنا ہی جانور اس طرح فروخت نہ کرے کہ ایک شخص کا بائع اور مشتری دونوں ہونا لازم آئے۔ نیز وکیل کی حیثیت سے قربانی کرنے کی صورت میں اگر کچھ رقم زاید لگے تو وکیل موکل سے لے لے اور بچے تو اسے واپس کرے یا جیسا موکل کہے ویسا کرے۔
بیع اور توکیل کے مسائل اور جزئیات کتب فقہ میں مصرح ہیں ان کے مطابق معاملہ کرنا چاہئے خلاف کرنے سے ایک تو گناہ ہوگا دوسرے کبھی موکل (حصہ لینے والے) کی ملکیت ہی ثابت نہیں ہوتی تو پھر قربانی کیسے درست ہوگی ان مسائل کا خیال کرنا حصہ کا اعلان کرنے والوں کی بھی ذمہ داری ہے اور حصہ لینے والے بھی مسائل کے مطابق تحقیق کرلیں تب حصہ لیں۔
(۲) بہتر تو یہ ہے کہ پہلے سات حصے دار طے ہوجائیں پھر ان کی طرف سے شرکت میں ایک جانور خرید لیا جائے۔ پہلے جانور خرید لیا پھر دو ایک حصہ دار جو کم تھے انھیں شامل کرلیا یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ جانور کا حصہ جتنی رقم میں پڑا ہے اتنی ہی رقم لی جائے۔ زاید نفع ملاکر حصہ بیچنا جائز نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند