• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 605257

    عنوان:

    باپ كی عدم موجودگی میں چچا كا عقیقہ كرسكتا ہے یا نہیں؟

    سوال:

    لڑکا اور لڑکی کا والد غائب ہو گیا ہے اور اس کا چچا اس لڑکی اور لڑکاعقیقہ کرنا چاہتا ہے لیکن اس لڑکی لڑکا کا والد ہ راضی نہیں ہے تو کیا یہ درست ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 605257

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1059-170T/L=11/1442

     بچے کا عقیقہ کرنا بنیادی طور پر باپ ہی کا حق ہے ؛ کیونکہ بچہ کا نفقہ اور کفالت اسی کی ذمہ دار ی ہے ، اگر کوئی اور اس کی اجازت سے عقیقہ کرنا چاہے ، تو کرسکتا ہے ، صورتِ مسؤولہ میں اگر باپ غائب ہے اور اس کا علم نہیں ، تو یہ حق بچہ کی ماں کا ہے ؛ کیونکہ باپ کی عدمِ موجودگی یا اعسار و تنگ دستی وغیرہ کی صورت میں نفقہ اور کفالت ماں پر آجاتی ہے ، پس عقیقہ کا حق بھی اسی کا ہوگا ، اس لئے چچا کو بغیر ماں کی رضامندی اور اجازت کے عقیقہ کرنا درست نہ ہوگا ۔

    ذہب الشافعیة إلی أن العقیقة تطلب من الأصل الذی تلزمہ نفقة المولود بتقدیر فقرہ، فیؤدیہا من مال نفسہ لا من مال المولود،ولا یفعلہا من لا تلزمہ النفقة إلا بإذن من تلزمہ.ولا یقدح فی الحکم أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قد عق عن الحسن، والحسین، مع أن الذی تلزمہ نفقتہما ہو والدہما؛ لأنہ یحتمل أن نفقتہما کانت علی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم لا علی والدیہما، ویحتمل أنہ علیہ الصلاة والسلام عق عنہما بإذن أبیہما.[الموسوعة الفقہیة الکویتیة 30/ 277)وفی المنیة: أب معسر وأم موسرة تؤمر الام بالانفاق ویکون دینا علی الاب، وہی أولی من الجد الموسر(الدر المختار للحصفکی (3/ 674 )والصغیر إذا کان لہ أب معسرٌ قادرٌ علی الکسب ولہ أم موسرة تؤمر الأم بالإنفاق علی أن ترجع علی الأب إذا أیسر فکذا ہہنا.ومن المشایخ من قال: لا ترجع الأم علی الأب ہہنا بما أنفقت.( المحیط البرہانی لمحمود النجاری (4/ 253) ( قولہ ورجع علی الأب إذا أیسر ) فی جوامع الفقہ : إذا لم یکن للأب مال والجد أو الأم أو الخال أو العم موسر یجبر علی نفقة الصغیر ویرجع بہا علی الأب إذا أیسر ، وکذا یجبر الأبعد إذا غاب الأقرب ؛ فإن کان لہ أم موسرة فنفقتہ علیہا ؛ وکذا إن لم یکن لہ أب إلا أنہا ترجع فی الأول .ا ہ فتح . قلت : وہذا ہو الموافق لما یأتی من أنہ لا یشارک الأب فی نفقة أولادہ أحد فلا یجعل کالمیت بمجرد إعسارہ لتجب النفقة علی من بعدہ بل تجعل دینا علیہ ؛ وسیذکر الشارح تصحیح خلافہ وأنہ لا بد من إصلاح المتون ؛ ویأتی الکلام فیہ ، وہذا إذا لم یکن الأب زمنا عاجزا عن الکسب وإلا قضی بالنفقة علی الجد اتفاقا ؛ لأن نفقة الأب حینئذ واجبة علی الجد فکذا نفقة الصغار ، ولا یخفی أن کلامنا الآن فی الأب العاجز عن الکسب تأمل .رد المحتار (13/ 196 197)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند