عبادات >> ذبیحہ وقربانی
سوال نمبر: 54080
جواب نمبر: 54080
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1178-1187/N=10/1435-U قربانی خواہ واجب ہو یا نفل اس میں بڑے جانور کا ساتواں یا ایک چھوٹا جانور صرف ایک شخص کی طرف سے کفایت کرتا ہے، اس میں ایک کے ساتھ دوسرا شریک نہیں ہوسکتا، اگر چھوٹے جانور میں یا بڑے جانور کے ساتویں حصہ میں دو لوگ شریک ہوگئے تو نہ واجب قربانی ہوگی اور نہ نفل، بلکہ وہ صرف کھانے کا گوشت ہوگا، یدل علیہ إطلاق ما في کتب الفقہ فقال في ملتقی الأبحر (مع المجمع والدر ۴: ۱۶۷ ط دارالکتب العلمیہ بیروت): وہي شاة أو بدنة أو سبع بدنة إلخ وفي المجمع: وہي: أي الأضحیة شاة تجوز من فرد فقط أو بدنة تجوز من واحد أیضًا أو سبع․․․ بدنة بیان للقدر الواجب اھ وقال في بدائع الصنائع (۴: ۲۰۶، ۲۰۷ ط مکتبہ زکریا دیوبند): وأما قدرہ فلا یجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن کانت عظیمة سمینة تساوي شاتین مما یجوز أن یضحّي بہما․․․ ولا یجوز بعیر واحد ولا بقرة واحدة عن أکثر من سبعة إلخ وقال في تحفة الفقہاء (۳: ۸۵ ط دار الکتب العلمیة بیروت): ”والإبل والبقر یجوز عن سبعة نفر علی ما روي جابر أنہ قال: نحرنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة، ولا تجوز الشاة عن أکثر من الواحد وإن کانت عظیمة قیمتہا قیمةُ شاتین لأن القربة إراقة الدم وذلک لا یتفاوت“ إھ اور مجمع الانہر اور تکملہ البحر الرائق میں ”سبع بدنة“ کے بعد جو ”بیان للقدر الواجب“ آیا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ بڑے جانور میں ساتواں حصہ مقدار واجب ہے، اس سے کم حصہ کی قربانی نہیں ہوسکتی ہے البتہ ایک شخص اپنی طرف سے پورا جانور کرسکتا ہے۔ پس صورت مسئولہ میں ۵۵ طلبہ کا تھوڑے تھوڑے پیسے ملاکر ایک چھوٹا جانور خریدنا اور نفلی طور پر اس کی قربانی کرنا درست نہیں، یہ قربانی نہ ہوگی، یہ صرف کھانے کا گوشت ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند