• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 36357

    عنوان: قربانی کا چمڑا

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و شرع متین اس مسئلہ میں ۔(۱)قربانی کا چمڑا حلال ہے یا حرام ؟ (۲)زید نے قربانی دی اور اس کا چمڑا بیچ کر اپنے خرچ میں لگایا، کیا زید کا اس روپیہ کو اپنی ضرورت کے لئے خرچ کرنا درست ہے یا نہیں؟ (۳) اگر زید نے قربانی دی اور چمڑے کو بیچ کر اس روپیہ کو مسجد کے کسی کام میں لگایا ، کیا یہ درست ہے یا نہیں؟ (۴) مسجد کمیٹی کے افراد تاجر ہیں، انہوں نے یہ نیت کی کہ قربانی کے چمڑے کو خرید کر اسکو بیچیں گے اور اس سے جو منافع ہونگے اس کو مسجد کے کام میں لگایں گے۔ اب مسجد کمیٹی کے افراد نے ایک روپیہ سے لیکر ایک سو روپیہ تک میں چمڑا خریدا، اب اسکو بیچنے کے بعد جو منافع حاصل ہوئے اس منافع کو مسجد کے کام لگانا درست ہے یا نہیں؟(کیا اس طرح کا حیلہ درست ہے ؟) (۵) عمر کا دعویٰ ہے کہ کسی بھی صورت سے چمڑے کا روپیہ مسجد میں لگانا جائز نہیں بلکہ حرام ہے ، کیا عمر کا دعویٰ صحیح ہے ؟مندرجہ ذیل مسائل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح کریں اور ہمیں گمراہی سے بچائیں ، عین کرم و نوازش ہوگی ۔

    جواب نمبر: 36357

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 234=37-2/1433 (۱) سوال واضح نہیں ہے۔ (۲) زید کے لیے چمڑے کی قیمت خود اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں، بلکہ قیمت صدقہ کرنا واجب ہے۔ (۳) یہ بھی درست نہیں کسی غریب کو مالک بناکر دینا ضروری ہے، پھر وہ جو چاہے کرے خواہ اپنے کام میں لائے یا مسجد مدرسہ میں دیدے۔ (۴) درست ہے، جب کہ انھوں نے اپنے منافع کی رقم لگائی ہو۔ (۵) عمر کا دعویٰ علی الاطلاق صحیح نہیں، قربانی کرنے والا اگر چمڑے فروخت کرے تو یہ قیمت مسجد میں لگانا جائز نہیں، لیکن اگر اس نے چمڑہ کسی غریب یا امیر کو ہبہ کرکے دیدیا اور اس نے فروخت کرکے اس کی قیمت اپنی طرف سے مسجد میں لگادی تو جائز ہے، اسی طرح اگر قربانی کرنے والے نے چمڑہ کسی کے ہاتھ فروخت کردیا، پھر اس نے دوسرے کے ہاتھ زیادہ نفع سے فروخت کیا تو قربانی کرنے والے کا اس کی قیمت مسجد میں لگانا جائز نہیں لیکن دوسرے شخص نے فروخت کرکے جو قیمت حاصل کی اس کا کل یا صرف نفع کی مقدار مسجد میں لگانا جائز ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند