• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 27505

    عنوان: قربانی کے سلسلے میں سوال ہے۔ (۱) کس پر قربانی واجب ہے؟ (۲) کیا ایسا شخص جس کے پاس کوئی بچت نہ ہواور وہ صرف اپنی /فیملی کی ضروری اخراجات پورا کرتاہو تو کیا اس پر قربانی واجب ہوگی؟(۳) میری بیوی کی ملکیت میں سونا اور کچھ زیورات ہیں جس کی میں زکاة دیتاہوں، کیا ان زیورات کی مالیت پر قربانی واجب ہوگی؟(۴) کیا زندوں کے مقابلہ میں مرحومین (والدین ، رشتہ دار )کے نام قربانی کرنا زیادہ بہترہے؟ (۵) کیا جن کے نام سے قربانی دی جائے اس وقت اس کا موجود رہنا افضل ہے؟میں خاص کر عورتوں کی موجودگی کے بارے میں پوچھنا چاہتاہوں۔(۶) قربانی کے لیے کس قسم کا جانورہونا اچھا ہے؟قربانی سے پہلے اگرقربانی کے جانور میں کوئی نقص(مثلاً ، گابھن ہونا، دوران سفر زخمی ہونایا کسی اہم بیماری کاہونا) ہوتو خریدار کو کیا کرنا چاہئے؟(۷) اگر جانور قربانی کے لیے لایا جائے مگر وہ مرجائے یا اس کو چور لے کر چلاجائے تو حصہ داروں کو کیا کرنا چاہئے؟کیا انہیں کیا نیا جانور خریدنا چاہئے؟ چاہے وہ صاحب نصاب ہو یا عام آدمی ہو/دونوں کے بارے میں بتائیں۔ براہ کرم، ان تمام سوالات پر ہماری رہنمائی فرمائیں۔ 

    سوال: قربانی کے سلسلے میں سوال ہے۔ (۱) کس پر قربانی واجب ہے؟ (۲) کیا ایسا شخص جس کے پاس کوئی بچت نہ ہواور وہ صرف اپنی /فیملی کی ضروری اخراجات پورا کرتاہو تو کیا اس پر قربانی واجب ہوگی؟(۳) میری بیوی کی ملکیت میں سونا اور کچھ زیورات ہیں جس کی میں زکاة دیتاہوں، کیا ان زیورات کی مالیت پر قربانی واجب ہوگی؟(۴) کیا زندوں کے مقابلہ میں مرحومین (والدین ، رشتہ دار )کے نام قربانی کرنا زیادہ بہترہے؟ (۵) کیا جن کے نام سے قربانی دی جائے اس وقت اس کا موجود رہنا افضل ہے؟میں خاص کر عورتوں کی موجودگی کے بارے میں پوچھنا چاہتاہوں۔(۶) قربانی کے لیے کس قسم کا جانورہونا اچھا ہے؟قربانی سے پہلے اگرقربانی کے جانور میں کوئی نقص(مثلاً ، گابھن ہونا، دوران سفر زخمی ہونایا کسی اہم بیماری کاہونا) ہوتو خریدار کو کیا کرنا چاہئے؟(۷) اگر جانور قربانی کے لیے لایا جائے مگر وہ مرجائے یا اس کو چور لے کر چلاجائے تو حصہ داروں کو کیا کرنا چاہئے؟کیا انہیں کیا نیا جانور خریدنا چاہئے؟ چاہے وہ صاحب نصاب ہو یا عام آدمی ہو/دونوں کے بارے میں بتائیں۔ براہ کرم، ان تمام سوالات پر ہماری رہنمائی فرمائیں۔ 

    جواب نمبر: 27505

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 1832=530-1/1432

    (۱) جس کی ملک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے بقدر روپئے یا اتنی قیمت کی کوئی اور چیز حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو اس پر قربانی واجب ہے۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب کہ کچھ سونا، کچھ چاندی، کچھ نقدی اور کچھ سامان حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو اور ان کی قیمت 52.5 تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر ایک سے نصاب پورا نہ ہوتا ہو اور دوسرے کے ملادینے سے نصاب پورا ہوجاتا ہے، تو دونوں کو ملاکر نصاب پورا کرلیں گے اور ایسی صورت میں اس پر قربانی واجب ہوگی۔ والموسر في ظاہر الروایة: من لہ مائتا درہم أوعشرون دینارًا أو شيء یبلغ ذلک سوی مسکنہ ومتاع مسکنہ․․․ فعلیہ الأضحیة (الہندیة: ۵/۲۹۲، شامي: ۹/۴۵۳، مجمع الأنہر: ۴/۱۶۷)
    (۲) ایسے شخص پر قربانی واجب نہیں ہے، بشرطیکہ اس کے پاس حاجت اصلیہ سے زائد سامان اتنی مقدار میں نہ ہو جس سے نصاب پورا ہوجاتا ہے۔ وأما شرائط الوجوب، منہا: الیسار،وہو من لہ مائتا درہم أو عشرون دینارًا أو شيء یبلغ ذلک سوی مسکنہ․․․إلی قولہ․․․ في حاجتہ التی لا یستغني عنہا (ہندیة: ۵/۲۹۲، بدائع: ۴/۱۹۶)
    (۳) جی ہاں ان زیورات کی مالیت پر قربانی واجب ہوگی۔
    (۴) اگر خود صاحبِ نصاب ہے تو اس کو پہلے اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے، اس کے ترک کی گنجایش نہیں، اس کے بعد اگر گنجایش ہے تو اپنے میت رشتہ داروں بالخصوص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی کردینی چاہیے۔ فینبغي لمن وجد سعة أن یضحي عن حبیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کل عام ولو بشاة (إعلاء السنن) اس میں افضلیت کے متعلق کوئی صریح دلیل نہیں ہے، زندہ کی طرف سے کرے یا میت کی طرف سے کرے۔
    (۵) جن کے نام سے قربانی دی جارہی ہے ان سب کا قربانی کے وقت موجود ہونا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ اجازت کافی ہے، البتہ موجود ہونا مستحب ہے: وندب أن یذبح بیدہ إن علم ذلک وإلا یعلمہ شہدہا بنفسہ ویأمر غیرہ بالذبح (درمختار: ۵/۲۳۱) اور عورتوں کے لیے یہ ہے کہ اگر شرکاء محرم ہوں اور بے پردگی کا خطرہ نہ ہو تو اس کا بھی موجود ہونا مستحب ہے ورنہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو موجود رہنے کا حکم دیا تھا۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”قومي یا فاطمة، فأشہَدي أضحیتَکِ فإنہ یُغفر لکِ بأول قطرة من دمہا کل ذنب عملتِہ، وقولي: ﴿اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ․ لاَ شَرِیْکَ لَہ﴾۔
    (۶) ایسے جانور کی قربانی بہتر ہے جو فربہ ہو، موٹا تازہ ہو، جس کا گوشت لذیذ ہو، زیادہ قیمت والا ہو، باقی جس کی جیسی حیثیت ہو وہ اپنی حیثیت کے مطابق جانور خریدے۔ نیز قربانی سے پہلے جانور کا گابھن ہونا ظاہر ہوا تو بھی اس کی قربانی جائز ہے، لیکن اگر ولادت کا زمانہ بالکل قریب ہے تو مکروہ ہے: شاة أو بقرة أشرفت علی الولادة، قالوا یکرہ ذبحہا؛ لأن فیہ تضییع الولد (ہندیہ: ۶/۹۲) یا قربانی سے پہلے جانور بیمار ہوگیا تو اگر ایسی بیماری ہے یا ایسا زخم ہے جس کی وجہ سے قربانی درست نہ رہی تو اس کے لیے دوسرا جانور خریدنا ضروری ہے بشرطیکہ وہ غنی ہو اور اگر فقیر ہے تو وہی جانور کافی ہے، اور اگر معمولی بیماری ہے کہ جس کی وجہ سے اس کی قربانی ممنوع نہیں تو اس کے ذمے دوسرا جانور خریدنا واجب نہیں۔ ولو اشتراہا سلیمة ثم تعیبت بعیب مانع فعلیہ إقامة غیرہا مقامہا إن کان غنیًا وإن کان فقیرًا؛ أجزأہ ذلک (درمختار: ۵/۲۰۷)
    (۷) اگر جانور قربانی سے پہلے مرگیا، یا چوری ہوگیا، تو اگر شرکاء مال دار ہیں؛ تو ان کو دوسرا جانور خریدنا ہوگا اور اگر عام آدمی ہیں (غریب ہیں) تو ان کے ذمے دوسرا جانور خریدکر قربانی کرنا لازم نہیں ہے: إذا ماتت المشتراة للتضحیة علی موسر تجب مکانہا أخری ولا شيء علی الفقیر (مجمع الأنہر: ۳/۱۷۳)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند