• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 179824

    عنوان: کس کس قسم کے جانور کی قربانی شرعا جائز ہے ؟ 

    سوال:

    (۱) کیا حیاتیاتی طور پر (Biological) ایک ہی خاندان (Family) سے تعلق رکھنے والے تمام جانوروں کے شرعی احکام ایک جیسے ہیں؟ جیسا کہ اونٹ کا حیاتیاتی خاندان کاملیڈی [Camelidae] ہے -کیا اس خاندان کے تمام ذیلی گروپوں (Genus) کے جانوروں پر اونٹ کا حکم لگے گا؟ اور کیا اس حیاتیاتی خاندان سے تعلق رکھنے والے تمام جانوروں کی قربانی ہو سکتی ہے ؟ اونٹ کے حیاتیاتی خاندان کے بعض ذیلی گروپ کے نام نیچے درج کیے جا رہے ہیں الف - حیاتیاتی ذیلی گروپ "کیملوس" (Genus Camelus) سے تعلق رکھنے والے جانور جیسا کہ i۔عربی اونٹ (Dromedary / Arabian camels)، ii۔ باختری اونٹ(Bactrian camels)، iii۔وحشی باختری اونٹ(Wild Bactrian camels) ب- حیاتیاتی ذیلی گروپ "لامة" (Genus Lama) سے تعلق رکھنے والے جانور جیسا کہ i۔اللاما (llama) (اللاما أو اللاّمة أو اللامة الأہلیّة )الاسم العلمی: Lama glama) حیوان من الثدییات من فصیلة الجملیات من رتبة مزدوجات الأصابع. ، یعیش فی جبال الأندیز فی أمریکا الجنوبیة فی کل من إکوادور، بیرو، بولیفیا، تشیلی وشمال غرب الأرجنتین[i]) ii-ألبکة (Alpaca)، (الالباکا(الاسم العلمی:Lama Pacos) ہو حیوان ثدییی ذو حافر مدجن شبہ مستأنس من فصیلة الجملیات یعیش فی أعالی جبال الاندیز بأمریکا الجنوبیة ویشبہ الخروف طویل الرقبة، ویشبہ أیضا اللاما الصغیرة، وتؤکد الدراسات الجینیة الحدیثة أنہ ینحدر من سلالة حیوان الفکونة الجنوب أمریکی[ii]) iii۔غوناق (Guanaco) (غَوْنَاق حیوان بری من فصیلة الجملیات یعیش فی أمریکا الجنوبیة. یعتبر صنفا فرعیا من اللاما، فالشبہ واضح جدا إلا أنہ عکس اللاما فإنہ ظل حیوانا بریا لم یستأنس[iii]) ج- حیاتیاتی ذیلی گروپ "فکونة" (Genus Vicugna) سے تعلق رکھنے والے جانور جیسا کہ فکونة (Vicugna) (الفِکّونة أو الفیکونیا (الاسم العلمی: Vicugna) (بالأسبانیة: La vicua) ہی جنس من الحیوانات الثدیة تتبع الفصیلة الجملیات من رتبة مزدوجات الأصابع. تعیش فی جبال أمریکا الجنوبیة، وہو من أقرباء اللاما، یعتبر من الحیوانات المہمة بالنسبة للسکان المحلین بسبب جودة صوفہ. تسمی ہذہ العادة التشاکو وہی تکرر کل سنتین لیتمکن الفرو من النمویتم الصید فیہا عن طریق حشر حیوانات الفکونة بین شباک علی شکل حرف v وتسمی بشباک المانجا طبعا بعد خطہ عبقریة من اہالی تلک المنطقة یشترک بہذہ العادة الصغار والکبار بعد أن یتمکنو من محاصرة الفکونة تربط ویؤخذ طبقہ کثیفہ ویترکو ما یدفیہا فقط ثم یطلقوہا حرہ لیعودوا إلیہا بعد سنتین (ویکون قوتہم فی ہذہ الفترة ہو مجموع بیع الصوف)[iv]) 2. کیا یاکyak - کی قربانی جائز ہے ؟ اسکی دو اقسام ہیں- الف وحشی یاک (Wild yak) ب- پالتو یاک (Domestic yak) یاک ایک ممالیہ جانور ہے جو گائے اور بیل سے ملتا جلتا ہے ۔

    یہ ہمالیہ کے علاقوں بالخصوص پاکستان کے ضلع چترال، گلگت بلتستان، چین، بھارت اور نیپال میں پایا جاتا ہے ۔ یہ ایک مضبوط اور بڑے جسم کا جانور ہے اس کی کھال موٹی اور کالے ، بھورے اور سفید رنگوں میں ہوتی ہے ۔ اس کے سینگ کالے ہوتے ہیں۔ ضلع چترال کے وادی بروغل میں اسے دودھ، گوشت اور مال برداری کے لیے پالا جاتا ہے ۔ اور چترال کا روایتی کھیل یاک پولو بھی اس جانور کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے ۔

    [v]- [i] https://ar.wikipedia.org/wiki/لاما_أہلیة [ii] https://ar.wikipedia.org/wiki/ألبکة [iii] https://ar.wikipedia.org/wiki/غوناق [iv] https://ar.wikipedia.org/wiki/فکونة [v] https://ur.wikipedia.org/wiki/یاک

    جواب نمبر: 179824

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:14-24T/SN=2/1442

     اس سلسلے میں فقہا نے جو اصول بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ بکری، گائے اور اونٹ کی نسل کے جو جانور ہیں ، ان کی قربانی شرعا جائز ہے یعنی گائے ، بیل ، بچھڑا ، بھینس ، دنبہ ، بھیڑ وغیرہ ؛ البتہ ان جانوروں سے قربانی کا جواز اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ یہ سب جانور پالتو ہوں، وحشی اور جنگلی جانوروں کی قربانی شرعا جائز نہیں اگرچہ گائے اور بکری وغیرہ کی جنس ہی سے کیوں نہ ہوں؛ لہذا آپ نے جن اقسامِ جانور کا ذکر کیا ہے ، ان میں سے جن کا بکری، گائے اور اونٹ کی جنس سے ہونا عدول مبصرین کے قول سے ثابت ہو ان کی قربانی شرعا جائز ہے ، بہ شرطے کہ وہ پالتو ہوں ۔ اگر پالتو نہیں ہیں تو ان کی قربانی محض اتحادِ نسل کی بنا پر جائز نہیں ہے ۔

    وہذا الباب مشتمل علی بیان جنس الواجب ونوعہ وسنہ، وقدرہ وصفتہ. (أما جنسہ) : فہو أن یکون من الأجناس الثلاثة: الغنم أو الإبل أو البقر، ویدخل فی کل جنس نوعہ، والذکر والأنثی منہ والخصی والفحل لانطلاق اسم الجنس علی ذلک، والمعز نوع من الغنم والجاموس نوع من البقر، ولا یجوز فی الأضاحی شیء من الوحشی، فإن کان متولدا من الوحشی والإنسی فالعبرة للأم، فإن کانت أہلیة تجوز وإلا فلا، حتی لو کانت البقرة وحشیة والثور أہلیا لم تجز، وقیل: إذا نزا ظبی علی شاة أہلیة، فإن ولدت شاة تجوز التضحیة، وإن ولدت ظبیا لا تجوز، وقیل: إن ولدت الرمکة من حمار وحشی حمارا لا یؤکل، وإن ولدت فرسا فحکمہ حکم الفرس، وإن ضحی بظبیة وحشیة أنست أو ببقرة وحشیة أنست لم تجز.[الفتاوی الہندیة 5/ 297،(الباب الخامس فی بیان محل إقامة الواجب)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند