• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 173207

    عنوان: دوسرے دن قربانی كرنے والے كے لیے بال وناخن كاٹنے كا حكم؟

    سوال: امید ہے مزاج بخیر ہوں گے، مولانا مجھے یہ جاننا تھا کہ جو حضرات قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں وہ عیدالاضحیٰ کی نماز تک بال نہیں نکالتے، ان احباب کے لئے کیا حکم ہے جو دوسرے دن قربانی میں حصہ لیتے ہیں، کیا وہ لوگ نماز بعد اپنے بالوں کی صفائی کر سکتے ہیں جبکہ ان کی قربانی دوسرے دن ہے؟یا پھر جب قربانی ہوجائیگی اس کے بعد ہی بالوں کی قربانی دینی ہوگی؟ برائے مہربانی جلد جواب سے مطمئین فرمائیں۔ شکریہ نیز مولانا میرے اور میرے خاندان بھائی بہنوں وسبھی جملہ رشتہ داروں نیز دوستوں کی صحت وعافیت نیز پریشانیوں سے بچنے کے لئے اور سبھی کے ایمان کی سلامتی کے لئے خصوصی دعا کی درخواست ہے۔ ساتھ ہی دادی جان ووالد صاحب کی صحت اور والدہ محترمہ کی مغفرت کے لئے خصوصی دعا کی بھی درخواست ہے۔

    جواب نمبر: 173207

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:90-20/sd=3/1441

    اگر اُن کی قربانی دوسرے دن ہو، تو بہتر یہی ہے کہ دوسرے دن تک رکے رہیں، اس بارے میں صریح جزئیہ تو نہیں مل سکا؛ البتہ ملا علی قاریکی عبارت ”حتی یضحی“ سے یہی مستفاد ہوتا ہے۔ لیکن واضح رہنا چاہیے کہ احناف کے نزدیک یہ ممانعت مکروہ تنزیہی پر محمول ہے، یعنی کاٹنا خلاف اولی ہے اور اِس کا قربانی کی ادائے گی و عدم ادائے گی سے کوئی تعلق نہیں ہے،لہذا اگر کوئی شخص عشرہ ذی الحجہ میں بال یا ناخن کاٹ لے، تب بھی اُس کی قربانی بلا کراہت اداء ہوجائے گی۔

    عن أم سلمة - رضی اللہ عنہا - قالت: قال رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم -: إذا دخل العشر، وأراد بعضکم أن یضحی فلا یمس من شعرہ وبشرہ شیئا۔قال الملا علی القاری : المستحب لمن قصد أن یضحی عند مالک والشافعی أن لا یحلق شعرہ، ولا یقلم ظفرہ حتی یضحی، فإن فعل کان مکروہا. وقال أبو حنیفة: ہو مباح، ولا یکرہ، ولا یستحب. وقال أحمد: بتحریمہ کذا فی رحمة الأمة فی اختلاف الأئمة. وظاہر کلام شراح الحدیث من الحنفیة أنہ یستحب عند أبی حنیفة فمعنی قولہ: رخص. أن النہی للتنزیہ فخلافہ خلاف الأولی، ولا کراہة فیہ خلافا للشافعی۔( مرقاة المفاتیح مع مشکاة المصابیح ، رقم ":۱۴۵۹)قال العثمانی التھانوی: نہی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أراد التضحیة عن قلم الأظفار وقص الشعر فی العشر الأول، والنہی محمول عندنا علی خلاف الأولی لما روی عن عائشة رضی اللّٰہ عنہا أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یبعث بہدیة، ولا یحرم علیہ شیء أحلہ اللّٰہ لہ حتی ینحر ہدیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اعلاء السنن: ۱۷/ ۲۶۸۲۶۴، مفصلاً، کتاب التضحیة، باب ما یندب للمضحی فی عشر ذی الحجة، ط: أشرفیة، دیوبند)۔ ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند