• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 158498

    عنوان: مشترکہ قربانی میں اگر تعیین سے پہلے کوئی جانور مرجائے تو ضمان کس پر آئے گا؟

    سوال: حضرت مفتی صاحب! بندہ کا تعلق ایک دینی جامعہ کے دارالافتاء سے ہے۔ ہمارے جامعہ میں عید قربانی کے موقع پر اجتماعی قربانی کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس سال یہ صورت پیش آئی کہ خریداری کے بعد گائے پر نمبر لگانے سے پہلے ایک جانور مر گیا۔ اب یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ یہ جانور کس کا مرا۔ ظاہر تو یہ ہے کہ موکل کا نقصان ہوا (لیکن کیا خریدتے ہی نمبر نہ لگانے کو وکیل کی کوتاہی کو موجب ضمان قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ نمبر لگانے کی صورت میں معلوم و متعین موکلین کا نقصان ہوتا اور اس کی تلافی بھی آسان ہوتی کہ ان سے پوچھ کر عمل کیا جاسکتا ہے)۔ مگر دشواری یہ ہے کہ کیا یہ صرف ۷/ افراد کا نقصان ہے یا جتنے لوگوں نے حصہ لیا، سب کا نقصان ہوا۔ اور اگر صرف ۷/ افراد کا نقصان ہوا، تو ان کا تعین کیسے ہو، اور اگر سب کا ہے تو جانور کے مرنے تک جتنے شرکاء تھے ان کا نقصان شمار ہوگا یا بعد میں آنے والے شرکاء پر بھی ضمان ہوگا۔ اس بنیاد پر کہ حصہ لینے کی وجہ سے وہ بھی اسکیم میں آگئے، اس لیے وہ بھی ضامن ہوگئے۔ اور چونکہ اجتماعی قربانی میں سب کا مفاد ہے، اس لیے باقاعدہ ” الغرم بالغرم ضمان سب پر ہوگا اور کچھ حضرات کہتے ہیں کہ ادارہ وکیل باالأضحیہ ہے اور جانور کے مرنے سے معذول نہیں ہوا اور مقصد قربانی بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس لیے وہ جانور خرید کے قربانی کر دے اور ضمان سب پر ڈال دے نیز یہ بھی قابل دریافت ہے کہ گائے نمبر لگانے کے بعد جانور مر جائے تو کیا اس صورت میں بھی سب کا نقصان ہوگا یا صرف اس ہی جانور کے شرکاء کا نقصان ہوگا۔ براہ کرم، پوری فقہی تحقیقات اور حوالہ جات سے مزین تفصیلی جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیے تاکہ پورا اطمینان ہو۔

    جواب نمبر: 158498

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:498-162T/N=1/1440

     (۱): اجتماعی قربانی میں جب تک جانور متعینہ حصہ داروں کے نام نہ خریدا جائے یا خریدتے ہی جانور پر متعینہ حصہ داروں کا نمبر نہ لگایا جائے، جانور متعینہ حصہ داروں کا نہیں ہوتا؛ اس لیے صورت مسئولہ میں جب جانور متعینہ حصہ داروں کے نام سے نہیں خریدا گیا اور نہ ہی خریدنے کے بعد جانور پر متعینہ حصہ داروں کا نمبر لگایا گیا تو وہ جانور کسی بھی خریدار نہیں ہوا؛ اس لیے اس صورت میں جب جانور مرگیا تو یہ کسی حصہ دار کا نقصان شمار نہ ہوگا، یہ نقصان ذمہ داران جامعہ کے سرہوگا۔

     (۲): قربانی میں کوئی بڑا جانور سات سے زیادہ حصہ داروں کی طرف سے نہیں ہوسکتا اور وکیل سات موٴکلین کی نیت سے یا ان کے متعینہ پیسوں سے جانور خریدے تو وہ ان سات موٴکلین کا ہوتا ہے، بغیر نیت کے یوں ہی خریدنے سے یا سات سے زیادہ موٴکلین کے مشترکہ پیسوں سے خریدنے سے جانور موٴکلین کا نہیں ہوتا؛ کیوں کہ پہلی صورت میں موٴکلین کی نیت سے خریدا ہی نہیں گیا اور دوسری صورت میں موٴکلین کی وکالت کے خلاف تصرف کیا گیا؛ کیوں کہ ہر موٴکل بڑے جانور میں ساتویں حصہ خریدنے کا وکیل بنایا ہے، آٹھواں یا نواں حصہ نہیں؛ اس لیے صورت مسئولہ میں ضمان صرف ذمہ داران جامعہ کے سر ہوگا۔

    یجب أن یعلم أن الشاة لا تجزیٴ إلا عن واحد وإن کانت عظیمة والبقر والبعیر یجزیٴ عن سبعة إذا کانوا یریدون بہ وجہ اللہ تعالی والتقدیر بالسبع یمنع الزیادة ولا یمنع النقصان کذا في الخلاصة (الفتاوی الھندیة، کتاب الأضحیة، الباب الثامن فیما یتعلق بالشرکة فی الضحایا، ۵: ۳۰۴، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، وإن -وکلہ- بشراء شیٴ بغیر عینہ فالشراء للوکیل إلا إذا نواہ للموٴکل وقت الشراء أو شراہ بمالہ أي: بمال الموٴکل (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوکالة، باب الوکالة بالبیع والشراء، ۸: ۲۵۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، إن أضاف العقد إلی مال أحدھما کان المشتري لہ وإن أضافہ إلی مال مطلق فإن نواہ للآمر فھو لہ وإن نواہ لنفسہ فھو لہ الخ وبہ علم أن محل النیة للموٴکل فیما إذا أضافہ إلی مال مطلق سواء نقدہ من مالہ أو من مال الموٴکل (رد المحتار، ۸: ۲۵۲)۔

     (۳): اگر کسی جانور پر سات حصہ داروں کا نمبر لگانے کے بعد وہ جانور مرگیا تو اس صورت میں صرف ان سات متعینہ حصہ داروں کا نقصان ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند