• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 157316

    عنوان: زندہ اور فوت شدہ لوگوں کی طرف سے قربانی

    سوال: مفتی صاحب، مجھے قربانی کے کچھ مسئلوں پر آپ سے رہنمائی درکار ہے ; ۱- ہمارے مسجد کے پرانے مولانا صاحب نے یہ مسئلہ بیان کیا تھا کہ زندہ لوگوں کی طرف سے قربانی واجب ہو تی ہے اور جو لوگ انتقال کر چکے ہیں انکی طرف سے نفلی، اور ایک ہی جانور (گائے ، اونٹ) میں دونوں کو ملانا اسطرح سے کہ کچھ حصے زندہ لوگوں کی طرف سے اور کچھ حصے فوت شدہ لوگوں کی طرف سے ٹھیک نہیں، اس سے قربانی پر اثر پڑتا ہے .(اس بات کی ہمارے مسجد کے نئے مولانا صاحب جو جامعہ بنوریہ کے فارغ ہیں انھوں نے بھی تصدیق کی ہے )۔ براہ کرم اس بات کی وضاحت کر دیں اور مسنون و افضل عمل کی طرف رہنمائی فرما دیں۔ ۲- اگر یہ مسئلہ صحیح ہے تو پھر ان قربانیوں کا کیا ہو جو اب تک اس طرز پہ کی گئی؟ ۳- اگر کوئی ایک ہی جانور میں دونوں طرح کے حصے ملا نا چاہیے تو اسکی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ مولا صاحب نے اس کا طریقہ یہ بتایا تھا کہ جو حصے کسی مرحوم کی طرف سے کرنے ہو اس کو کسی زندہ کی طرف سے کریں اور اس کا ثواب اس مرحوم کو بخش دیا جائے . براہ کرم اس بات کی بھی وضاحت کردیں۔

    جواب نمبر: 157316

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:327-263/sd=3/1439

    (۱تا ۳) میت کو ثواب پہنچانے کے لیے اُس کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے ؛ بلکہ موجب ثواب ہے ، جس جانور میں واجب قربانی کے حصے ہوں، اُس میں نفلی قربانی کا بھی حصہ لیا جاسکتا ہے اور میت کی طرف سے قربانی اُس کے نام سے مستقلا بھی کی جاسکتی ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ نفلی قربانی اپنے نام سے کی جائے اور اُس کا ثواب میت کو پہنچا دیا جائے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے قربانی کرنے کے علاوہ امت کے افراد کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے ۔(بیہقی ۲۶۸/۹)اس قربانی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ افراد کے لئے خاص نہیں کیا کرتے تھے ، اور نہ ہی نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول، حتی کی کسی صحابی کا قول کتب حدیث میں موجود ہے کہ قربانی صرف زندہ افراد کی طرف سے کی جاسکتی ہے ۔ نیز قربانی کرنا صدقہ کی ایک قسم ہے ، قرآن وحدیث کی روشنی میں صدقہ میت کی طرف سے باتفاق امت کیا جاسکتا ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند