• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 156392

    عنوان: کیا ہمیں دوبارہ عقیقہ کرنا چاہئے؟

    سوال: میں نے پندرہ سال پہلے ایک مطلقہ عورت سے شادی کی تھی(میری شادی سے سات پہلے اس نے خلع لیا تھا) اور اس کا ایک سال کا بیٹا تھا جس کا نام وحید تھا۔ اب وحید ۲۲ سال کا ہوگیاہے، اور میری تین بیٹیا بھی ہوئی ہیں، میں نے وحید کا نام بدل کر وحید علی رکھ دیاتھا اور میں نے اس کی ولدیت میں اپنا نام دیدیا تھا باپ کی حیثیت سے ۔ ہماری شادی سے پہلے میری بیوی کے والد نے( وحید کے نانا) نے اپنے نام سے وحید کے باپ کی حیثیت سے وحید کا عقیقہ کیا تھا ۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں وحید کو باپ کی حیثیت سے اپنا نام دے سکتاہوں؟ (۲) کیا وحید کے نانا کا باپ کی حیثیت سے وحید کا عقیقہ کرنا درست ہوگیا؟اگر عقیقہ درست نہیں ہوا تو ہم کیسے عقیقہ کرسکتے ہیں؟ اور اس کا باپ کون ہوگا؟(میری بیوی کا پہلا شوہر؟ یا میں یعنی اس کا دوسرا شوہر؟) (۳) کیا ہمیں دوبارہ عقیقہ کرنا چاہئے؟ (۴) مجھ پر اور میری جائیداد کے تعلق سے شرعی حکم کیا ہے؟

    جواب نمبر: 156392

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:368-283/B=4/1439

    حقیقت میں وحید جس کا لڑکا ہے اسی کا نام ولدیت میں دینا ضروری ہے، آپ اپنا نام اس کی ولدیت میں نہیں دے سکتے۔

    (۲) نانا نے جو وحید کا عقیقہ کیا وہ صحیح ہوگیا۔

    (۳) آپ کو دوبارہ عقیقہ کرنے کی ضرورت نہیں۔

    (۴) نسبی رشتہ اس بیٹے (وحید) کے ساتھ نہیں ہے۔ لہٰذا وہ آپ کی جائیداد میں وارث نہ ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند