• معاملات >> حدود و قصاص

    سوال نمبر: 6670

    عنوان:

    ہمیں حدیث میں حکم یہ ہے کہ جب برائی کو دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو۔ اب جب ہمیں یہ حکم ہے تو کیا ہم زانی کو قتل کرسکتے ہیں اورہمارے پاس تمام ثبوت بھی موجود ہیں؟ اور اگر یہ صرف حکومت کا کام ہے تو ہماری حکومت نے توزنا بالجبر کو جائز قرار دے دیا ہے۔ تو کیا اب ہم اس انتظارمیں بیٹھ جائیں کہ کوئی اللہ کا ولی حکمراں بنے گا تو شریعت کو نافذ کرے گا، اور پھر وہ شریعت کے قانون کے مطابق اسے سزا دے گا۔تو کیا ہم اسے چھوڑ دیں کو جو کچھ مرضی میں ہے کرتا رہے؟ کوئی اسے روکنے والا نہ ہو اور قانون بھی خود اسے اس کام کی چھوٹ دے رہا ہو۔ تو برائے مہربانی میری تسلی کے لیے قرآن و حدیث کے مطابق تفصیلی جواب مرحمت فرمائیں۔

    سوال:

    ہمیں حدیث میں حکم یہ ہے کہ جب برائی کو دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو۔ اب جب ہمیں یہ حکم ہے تو کیا ہم زانی کو قتل کرسکتے ہیں اورہمارے پاس تمام ثبوت بھی موجود ہیں؟ اور اگر یہ صرف حکومت کا کام ہے تو ہماری حکومت نے توزنا بالجبر کو جائز قرار دے دیا ہے۔ تو کیا اب ہم اس انتظارمیں بیٹھ جائیں کہ کوئی اللہ کا ولی حکمراں بنے گا تو شریعت کو نافذ کرے گا، اور پھر وہ شریعت کے قانون کے مطابق اسے سزا دے گا۔تو کیا ہم اسے چھوڑ دیں کو جو کچھ مرضی میں ہے کرتا رہے؟ کوئی اسے روکنے والا نہ ہو اور قانون بھی خود اسے اس کام کی چھوٹ دے رہا ہو۔ تو برائے مہربانی میری تسلی کے لیے قرآن و حدیث کے مطابق تفصیلی جواب مرحمت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 6670

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1362=1277/ د

     

    حدود قائم کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری بہت سی شرعی مصلحتوں پر مبنی ہے،امام المسلمین اپنے دبدبہ اور قوت قاہرہ کی بنا پر اس کے قائم کرنے پر قادر ہے، دوسروں کی طرف سے اقامة حد کی صورت میں انتقامی جذبات کارفرما ہوکر فتنہ وفساد اورخونریزی کا سلسلہ شروع ہوگا۔ نیز جرم کے ثبوت کے لیے جو شرائط ہیں، مثلاً شہادت شرعیہ یا اقرار، ان کا تحقق بھی قاضی مسلمین یا امام المسلمین کے پاس ہوسکتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند