• معاملات >> حدود و قصاص

    سوال نمبر: 602093

    عنوان:

    كیا قتل خطا کے کفاروں میں تداخل ہوتا ہے ؟

    سوال:

    ایک بس ڈرائیور نے اپنی بس غلطی سے دیوار سے ٹکرا دیا جس کی وجہ سے بس میں سوار 15 افراد ہلاک ہوگئے اب اس ڈرائیور پر دیت کے علاوہ کفارہ ادا کرنے میں تداخل ہے یا نہیں یعنی 15 افراد میں سے ہر ایک کیلئے 60 روزے ضروری ہے یا سب کی طرف سے ایک کفارہ 60 روزے ضروری ہے ؟

    جواب نمبر: 602093

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 368-89T/D=06/1442

     قتل خطا کے کفاروں میں تداخل نہیں ہوتا، بلکہ جتنے مقتول ہیں اسی قدر کفارے قاتل پر واجب ہوں گے۔ ذیل میں مذکورہ جزئیات ملاحظہ فرمائیں:

    فتاوی ہندیہ میں ہے: في المنتقی: رجل ضرب بطن امرأتہ فألقت جنیناً حیًّا ثم مات، ثم ألقت جنیناً میِّتاً ثم ماتت الأم بعد ذلک، وللرجل الضارب بنون من غیر ہذہ المرأة، ولیس لہ ولد من ہذہ المرأة غیرہذا الذي ولدت عند الضربة، ولہا إخوة من أبیہا وأمہا، فعلی عاقلة الأب دیة الولد الذي وقع حیًّا ثم مات، ترث من ذلک أمہ السدس، ومابقي فلإخوة ہذا الولد من أبیہ، وعلی الأب کفارتان: کفارة فی الولد الواقع حیًّا، وکفارة في أمہ۔ (6/43، ط: زکریا، کتاب الجنایات، الباب العاشر في الجنین)۔

    مبسوط سرخسی میں ہے: أم ولد بین رجلین کاتباہا، فقتلت أحد المولیین خطأً، فعلیہا الأقل من القیمة ومن الدیة؛ لأن جنایة المکاتبة علی مولاہا کجنایتہا علی أجنبي آخر، وقد جنت وہي مکاتبة، فعلیہا الأقل من قیمتہا ومن أرش الجنایة، فإن قتلت الآخر بعدہ فعلی عاقلتہا الدیة؛ لأنہا عتقت حین قتلت الأول منہما، علی اختلاف الأصلین؛ لأن عندہما وإن لزمہا السعایة في نصیب الآخر فالمستسعیٰ حر، وعند أبي حنیفة لاسعایة علی أم الولد لمولاہا فعرفنا أنہا قتلت الآخر منہما وہي حرة، وعلیہا کفارتان؛ لأن الکفارة بالقتل تجب علی المملوکة کما تجب علی الحر الخ (27/123-124، ط: قدیم، أواخر کتاب الجنایات)

    البحر الرائق میں ہے: وأما صفتہا (صفة کفارة الظہار) فہي عقوبةٌ وجوباً، لکونہا شرعت أجزیة لأفعال فیہا معنی الحظر، عبادةٌ أداءً، لکونہا تتأدی بالصوم والإعتاق والصدقة، وہي قرب، والغالب فیہا معنی العبادة إلا کفارة الفطر في رمضان، فإن جہة العقوبة فیہا غالبة، بدلیل أنہا تسقط بالشبہات کالحدود، ولا تجب مع الخطإ، بخلاف کفارة الیمین، لوجوبہا مع الخطإ، وکذا کفارة القتل الخطإ، وأما کفارة الظہار فقالوا: إن معنی العبادة فیہا غالب، وخالفہم صدر الشریعة في الأصول فجعلہا ککفارة الفطر: معنی العقوبة فیہا غالب لکونہ منکراً من القول وزوراً، وردہ في التلویح، بأنہ فاسد نقلا وحکماً واستدلالاً، أما الأول فلتصریحہم بخلافہ، وأما الثاني فلأن من حکم ما تکون العقوبة فیہ غالبة أن تسقط بالشبہة وتتداخل، ککفارة الصوم، حتی لو أفطر مراراً لم تلزمہ إلا کفارة واحدة، ولا تداخل في کفارة الظہار، حتی لو ظاہر من امرأتہ مراراً لزمہ بکل ظہار کفارة۔ (4/169، ط: زکریا، باب الظہار، فصل في الکفارة)

    بدائع الصنائع میں ہے: ولنا: إن التحریر أو الصوم في الخطإ إنما وجب شکراً للنعمة، حیث سلم لہ أعز الأشیاء إلیہ في الدنیا، وہو الحیاة مع جواز الموٴاخذة بالقصاص الخ (6/299، ط: زکریا، کتاب الجنایات)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند