• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 66704

    عنوان: ٹی وی پر دینی پروگرام کے مواد کی تصحیح بذریعہ عالم دین

    سوال: (بندے نے یہ مسئلہ پہلے بہی بہیجا تہا مگر اس میں ایک چیز کی وضاحت رہ گئی تہی،وہ معلوم کرنے کے لیے دوبارہ بہیجا ہے ) جناب ایک مسئلہ معلوم کرنا تہا کہ آج کل رمضان المبارک میں مختلف ٹی وی چینل سحری و افطاری کے وقت دینی پروگراموں کی ٹرانسمیشن کرتے ہیں، تو اگر ایسے ہی ایک ٹی وی چینل سحری کے وقت ایک دینی پروگرام چلائے جس میں وہ عوام کو دینی مسائل اور معلومات دیں اور ان مسائل و معلومات کی تصحیح کسی عالم دین سے کروائیں تو کیا اس عالم دین کے لیے یہ کام کرنا صحیح ہے اور اس کے شایانِ شان ہے ؟ واضح رہے کہ عالم دین کو کیمرے / ٹی وی پر نہیں آنا ہوگا. بلکہ پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی اس کو پروگرام کا دینی مواد جو وہ عوام کے سامنے پیش کریں گے اس کا مسودہ اس عالم دین کو دیا جائے گا تاکہ وہ اس کی تصحیح کردے اور اگر کوئی غلط بات ہو تو اس کی نشاندہی کردے اور عالم دین کو اس کام کے لیے پیسے بہی ملیں گے ۔ مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ پروگرام پیش کرنے والا میزبان کوئی عام آدمی / ٹی وی ایکٹر ہوگا،پاکستان کے ایک ٹی وی چینل "اے آر وائی" کا یہی طریقہ کار ہے ۔میرے حلقئہ احباب میں دو عالم دین ہیں، ایک اس کام کو ناجائز کہہ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ عالم کے لیے جائز نہیں اور اگر جائز ہو بہی تو بہی اس کی شان کے مناسب نہیں کہ وہ برائی کے گڑھ میں جائے اور بے دین طبقے کی ہمت افزائی ہو کہ ایک عالم نے آکر ان کے پروگرام کے لیے اپنی خدمات فراہم کیں۔ دوسری بات یہ کہ یہ جائز بہی نہیں ہے کہ ایک عام آدمی جو کہ ایکٹر ہو، فاسق فاجر ہو ، دن بہر ڈرامہ اور فلم کے لیے کام کرتا ہو وہ دین کے مسائل اور معلومات بیان کرے اور ان پر بحث کرے ۔ تیسری خرابی اس میں یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ وہاں مخلوط پروگرام ہو یا تماشائی مخلوط ہوں اور اس میں دین کی بات کی جائے ۔ چوتہی بات یہ کہ گناہ اور برائی کے اڈے سے دین کی ترویج نہیں ہوسکتی اگرچہ بظاہر ہوتی ہو۔ اور کیا حق طریقے دین کی اشاعت کے لیے ختم ہوگئے ہیں جو عالم کو ٹی وی والوں کے لیے اپنی خدمات دینی پڑ رہی ہیں؟ چوتہا مسئلہ یہ ہے کہ اگر جائز بہی ہو اور عالم دین چلا جائے تو کل کو جب عام لوگوں کو پتا چلے گا کہ ایک عالم آکر ٹی وی چینل والوں کی تصدیق کرتا ہے تو ان کا اعتماد ٹی وی والوں پر بڑہے گا اور پہر عوام ان کی ہر بات اس بنیاد پر قبول کرنے لگیں گے جس کا غلط فائدہ بہی کل کو یہ ٹی وی والے اٹہا سکتے ہیں (اور اکثر علماء کو شروع میں اسی طرح سے استعمال کیا جاتا ہے .) سو اس طرح ایک عالم ٹی وی والوں کی ہمت افزائی کا ذریعہ بنے گا کہ ٹی وی پر نام نہاد دینی پروگرام کرنا صحیح ہے چاہے وہ کئی گناہوں کا مجموعہ اور ذریعہ ہی کیوں نہ بن رہا ہو، تو ان خرابیوں کو سامنے رکہتے ہوئے ایک عالم کا وہاں جانا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ دوسرے عالم جو جائز بتا رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر نہیں جائیں تو وہ کسی بریلوی یا اہل حدیث یا اور کسی غلط آدمی کو بلا لیں گے جس سے لوگوں تک غلط باتیں پہنچ جائیں گی اس لیے جانا ضروری ہے ۔ آپ بتائیں کہ احتیاط کس کے قول میں ہے ؟ اور چینل میں جانے میں اور یہ کام کرنے میں کیا فوائد ہوسکتے ہیں اور کیا مفاسد ہوسکتے ہیں؟ برائے کرم آپ وضاحت فرمائیں. جزاکم اللہ خیرا

    جواب نمبر: 66704

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1011-1011/M=10/1437 جو عالم دین اس کو ناجائز کہہ رہے ہیں ان کی بات راجح، اقرب الی الصواب اور احوط ہے اس لیے کہ فقہی ضابطہ ہے کہ مفاسد و منافع دونوں جمع ہوں تو جلب منافع کے مقابلے میں مفاسد سے بچنا اولیٰ ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند