• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 64636

    عنوان: ایک خواب کی تعبیر اور” سماع موتی“ کی بحث

    سوال: میں لیٹا ہوا ہوں مجھے سفید چادر اڑھا دیا گیا ہے ، میرے ارد گرد میرے سارے رشتہ دار بیٹھے ہوئے ہیں،سب مغموم ہیں، بالکل نظارہ موت کا ہے اور میت میں ہوں ، مجھے حلق میں ایک تیز جلن محسوس ہوتی ہے جسے بیان نہیں کیا جا سکتا، میں چیخنا چاہتا ہوں مگر صرف اس لئے نہیں چیختا کہ لوگ کہیں گے کہ بہت ہی گناہگار تھا اس لئے روح بڑی تکلیف سے نکلی، میں نے ساری تکلیف برداشت کرلی ، اب میں سبھوں کی باتیں سن رہا تھا ، سمجھ رہا تھا مگر میں حرکت کرنے اور کلام کرنے سے قاصر تھا۔برائے کرم تعبیر بتائیں اور کیا سماع موتی کا زکر قرآن و حدیث میں ہے ۔

    جواب نمبر: 64636

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 691-639/Sn=7/1437 (۱) اس خواب میں اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ سے احکامِ شرعیہ پر عمل درآمد کرنے میں کوتاہی ہورہی ہے؛ اس لئے آپ اس کی طرف دھیان دیں اور احکامِ شرعیہ پرپورے طورپر عمل کرنے کی مکمل کوشش کریں۔ (۲) قرآن کریم کی سورہٴ فاطر میں ہے: وما یستوي الأحیاء ولا الأموات ،إن اللہ یُسمع من یشاء، وما أنت بمسمع من في القبور (فاطر:۲۲) اسی طرح سورہٴ نمل میں ہے إنک لاتسمع الموتی ولاتسمع الصم الدعاء إذا ولّوا مدبرین (نمل:۸) اور سورہٴ روم میں ہے: فإنک لاتسمع الموتی ولاتسمع الصم ا لدعاء إذا ولوا مدبرین (الروم:۳۰) ان آیتوں سے سماعِ موتی کی نفی ہوتی ہے، اس کے بر عکس بخاری شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: العبد إذا وضع في قبرہ وتولی وذہب أصحابہ حتی إنہ یسمع قرع نعالہم أتاہ ملکان الحدیث(بخاری،باب المیت یسمع خفق النعال ،رقم:۳۳۸) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے: ․․․․نافع أن بن عمر أخبرہ قال: اطلع النبي صلی اللہ علیہ وسلم علی أہل القلیب، فقال: وجدتم ما وعد ربکم حقا؟ فقیل لہ: تدعو أمواتا ؟ فقال: ما أنتم بأسمع منہم ؛ولکن لایجیبون الحدیث(بخاری،۱۳۷،باب ما جاء فی عذاب القبر) یہ اور ان کے علاوہ بعض دیگر احادیث سے ”سماعِ موتی “ کا ثبوت ہوتا ہے؛اسی لئے یہ مسئلہ حضرات صحابہ کے زمانے سے ہی مختلف فیہ چلا آرہا ہے، بعض حضرات (مثلا حضرت عبد اللہ بن عمر) سماعِ موتی کے قائل ہیں جب کہ بعض ( مثلاحضرت عائشہ(رض)) اس کی نفی کرتے ہیں،چونکہ قرآن کریم میں جہاں بھی اِس (سماعِ موتی) کا ذکر آیا ہے ،وہاں ہر جگہ اس بات کی نفی کی گئی ہے کہ مردوں کو تم سنا نہیں سکتے ،کسی بھی آیت میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ مردے سنتے نہیں ہیں ،جب کہ احادیث میں سننے کا اثبات ہے؛اس لئے بعض علماء نے یہ تطبیق بیان فرمائی کہ مردوں میں سننے کی صلاحیت تو ہوسکتی ہے ؛لیکن ہم اپنے اختیار سے انھیں سنا نہیں سکتے؛ بلکہ اللہ تعالی جس کو چاہے سنا دیتے ہیں ،جس کو چاہے نہیں سناتے ،جن احادیث میں سننے کا ذکر ہے، وہ اسی پر محمول ہیں،بس جن مواقع میں حدیث کی روایات صحیحہ سے سننا ثابت ہے، وہاں سننے پر عقیدہ رکھنا چاہئے اور جہاں ثابت نہیں ہے وہاں دونوں احتمال ہیں؛اس لئے نہ قطعی اثبات کی گنجائش ہے نہ قطعی نفی کی۔تفصیل کے لئے دیکھیں: معارف القرآن (۶/۶۰۲،تفسیر سورہٴ نمل) احکام القرآن از مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی(رح)،(تفسیر سورہٴ روم) اور فتاوی عثمانی( ۱/۶۶،ط:نعیمیہ دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند