• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 63992

    عنوان: بیان میں بے نمازی کو کمینہ اور غدار اور دھوکہ باز کہنا؟

    سوال: عرض یہ ہے کہ کوئی اپنے بیان میں بے نمازی کو کمینہ اور غدار اور دھوکے باز کہہ کر ترک نماز سے لوگوں کو بچائے تو کیا اسکے ان الفاظ سے شریعت کے خلاف کام کرنا ہوا ؟براہ کرم جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

    جواب نمبر: 63992

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 451-451/Sd=7/1437 بیان میں شائستہ اور مناسب الفاظ استعمال کرنے چاہییں، اصلاحی بیان کا اسلوب جتنا سادہ، عام فہم اور مخلوق کے تئیں شفقت اور خیر خواہی کے مضامین پر مبنی ہوگا، اتنا ہی بیان موثر اور مفید ہوگا،اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: ادع الی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس آیت میں خود پیغمبر علیہ السلام کو تعلیم دی جارہی ہے کہ لوگوں کو راستے پر کس طرح لانا چاہیے ۔۔۔۔”موعظہ حسنہ“ موثر اور رقت انگیز نصیحتوں سے عبارت ہے ، جن میں نرم خوئی اور دل سوزی کی روح بھری ہو ، اخلاص، ہمدردی اور شفقت وحسن اخلاق سے خوبصورت اور معتدل پیرایہ میں جو نصیحت کی جاتی ہے ، بسا اوقات بتھر کے دل بھی موم ہوجاتے ہیں۔۔ایک پژ مردہ قوم جھر جھری لے کر کھڑی ہوجاتی ہے ، لوگ ترغیب و ترہیب کے مضامین سن کر منزل مقصود کی طرف بے تابانہ دوڑنے لگتے ہیں اور بالخصوص جو زیادہ عالی دماغ اور ذکی و فہیم نہیں ہوتے؛ مگر طلب حق کی چنگاری سینے میں رکھتے ہیں، اُن میں موثر وعظ و پند سے عمل کی ایسی اسٹیم بھری جا سکتی ہے ، جو بڑی اونچی عالمانہ تحقیقات کے ذریعے سے ممکن نہیں۔۔۔۔۔آگے مزید فرماتے ہیں:مقصود تفہیم اور احقاق حق ہونا چاہیے ، خشونت، بد اخلاقی، سخن پروری اور ہٹ دھرمی سے کوئی نتیجہ نہیں۔ (ترجمہ شیخ الہند، سورہ نحل، آیت: ۱۲۵) لہذا صورت مسئولہ میں ترک نماز سے لوگوں کو بچانے کے لیے مذکورہ الفاظ کااستعمال مناسب نہیں ہے، اس سے بیان کا وقار کمزور ہوجاتا ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند