• معاملات >> دیگر

    سوال نمبر: 63518

    عنوان: احکام شرعیہ کا مدار آلات پر نہیں

    سوال: حضرت مفتی صاحب حفظہ اللہ ، فقہا کرام لکھتے ہیں ، کہ حمل کی میراث کے لے ایک شرط یہ ہے کہ" إنفصال الولد حیا" اور اس شرط کی علت یہ لکہی گئی کہ" وإنما شرطنا فی التوریث إنفصال الولد حیا لأن حالہ عند موت المورث لا یمکن معرفتہ حقیقة ولکن إذا انفصل حیا کان ذلک دلیلا للحیاة یومئذ" ( "المبسوط للسرخسی " دار الکتب العلمیة،بیروت،لبنان ، الطبعة الأولی، 1421ہ، باب میراث الحمل ,30\61) سوال یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہے کہ آج کال طب جدید کی ذریعہ ولادت سے پہلے بھی بچہ کی حیات سے یقینی طور پر واقف ہو نا ممکن ہے ،کیا طبی معلومات یقینیہ پر اعتماد کرنا جائز ہے ؟اگرچہ -بچہ میت نکلا وان کان جائزا فما المراد بالحدیث"إذا استہل المولود ورث" ؟ بینوا و تؤجروا .

    جواب نمبر: 63518

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 221-221/Sd=5/1437 احکام شرعیہ کا مدار آلات پر نہیں؛ بلکہ ایسے ظاہر پر ہے، جس کو ہرشخص بسہولت معلوم کرنے پر قادر ہو، اس کا جاننا ایسے آلات پر موقوف نہ ہو، جس کا علم صرف خاص لوگوں کو ہی حاصل ہوتا ہے؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں بچے کے حق میں وراثت کے احکام جاری ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بچہ زندہ پیدا ہو جیسا کہ سوال میں مذکور حدیث ”اذا استہل المولود ورث“ (أبوداوٴد: ۳/ ۸۷) میں اس کی صراحت ہے، اگر بچہ مردہ پیدا ہوگا تو اس کے حق میں وراثت کے احکام جاری نہیں ہوں گے خواہ طب جدید کے کسی آلے کے ذریعے ولادت سے پہلے بچے کی حیات کا علم ہو۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند