• عبادات >> دیگر

    سوال نمبر: 63465

    عنوان: انتقال پر ہر انسان نجس ہوجاتا ہے اگر چہ اس کے جسم یا کپڑے پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو

    سوال: (۱) میرے ناناکا جب انتقال ہوا تو اس سے پہلے وہ تین دن تک بھرتی تھے اور جب وہ بھرتی تھے تو ان کی پاکی برقرار نہیں رہ پائی اور ان کااسی حالت میں انتقال ہوگیا، تو اب مجھے یہ جاننا ہے کہ اسی حالت میں غسل جلدکرنادینا چاہئے یا جب جنازہ لے کر جانا ہو تو اس سے کچھ دیر پہلے ہی غسل کرانا چاہئے؟ کیوں کہ لوگ بول رہے تھے کہ اگر مردہ ناپاک ہے تو فرشتے اس کے پاس نہیں آتے ہیں اس مسئلہ کی تفصیل سے مجھے جانکاری دیں۔ کیوں کہ ایسے کئی موقع بھی آتے ہیں جب انسان کا ناپاکی کی حالت میں ہی انتقال ہوجاتاہے۔ (۲) اور جنازے کے پیچھے چلتے ہوئے سب سے افضل تسبیح کیا پڑھنی چاہئے؟ (۳) اور جنازے کو کاندھا نہ دے پائے زیادہ بھیڑ کی وجہ سے یا کوئی جسمانی دقت ہو تو اس کا کوئی نقصان ؟

    جواب نمبر: 63465

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 396-410/N=5/1437 (۱):انتقال پر ہر انسان نجس ہوجاتا ہے اگر چہ اس کے جسم یا کپڑے پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو؛ اس لیے ظاہری نجاست کی وجہ سے انتقال کے فوراً بعد غسل دینے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ جب کفن دفن وغیرہ کا سارا سامان مہیا ہوجائے تو میت کو غسل دیا جائے، البتہ کفن دفن کا سامان میہا ہوجانے کے بعد آنے والے رشتہ داروں کے انتظار میں یا نماز جنازہ میں مجمع کی کثرت کے لیے کسی فرض نماز کے انتظار میں غسل اور نماز جنازہ وغیرہ میں تاخیر کرنا مکروہ ہے؛ بلکہ فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر جمعہ کے دن نماز جمعہ سے پہلے نماز جنازہ اور تدفین وغیرہ سے فراغت ممکن ہے تو نماز جمعہ کے انتظار میں تاخیر کرنا بھی مکروہ ہے، قولہ: ” -یندب- تعجیلہ“:أي: تعجیل جھازہ عقب تحقق موتہ ،ولذا کرہ تأخیر صلاتہ ودفنہ لیصلی علیہ جمع عظیم بعد صلاة الجمعةکما مر الآدمی حیوان دموي فیتنجس بالموت کسائر الحیوانات ، وھو قول عامة مالمشایخ ،وھو الأظھر ، بدائع، وصححہ الکافی ،قلت: ویوٴیدہ إطلاق محمد نجاسة غسالتہ الخ(شامی ۳: ۸۴، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)،وکرہ تأخیر صلاتہ ودفنہ لیصلی علیہ جمع عظیم بعد صلاة الجمعة إلا إذا خیف فوتھا بسبب دفنہ ، قنیة (در مختار مع شامی ۳: ۱۳۶)،نیز احسن الفتاوی (۴: ۲۵۲، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی) دیکھیں،اور بہشتی زیور مدلل (۲: ۵۲) میں ہے:جب گور وکفن کا سب سامان ہوجائے اور نہلانا چاہو الخ۔ (۲):جنازہ کے پیچھے چلتے ہوئے خاموش رہنا چاہئے اور موت اور آخرت وغیرہ کے متعلق غور وفکر کرنا چاہئے ،اور اگر کوئی شخص کوئی ذکر یا قرآن پاک کی تلاوت کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے،البتہ آواز کے ساتھ ذکر یا تلاوت نہ کرے، فی البحر عن الغایة:وینبغي لمن تبع الجنازة أن یطیل الصمت، وفیہ عن الظھیریة : فإن أراد أن یذکر اللہ تعالی یذکرہ في نفسہ الخ(شامی ۳: ۱۳۸)، وعلی متبعی الجنازة الصمت، ویکرہ لھم رفع الصوت بالذکر وقراء ة القرآن(فتاوی عالمگیری قدیم ۱: ۱۶۲، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)۔ (۳):جی نہیں!اگر کسی عذر کی وجہ سے جنازے کو کاندھا نہ دیا جاسکے تو کچھ حرج نہیں ؛ بلکہ اگرعذر نہ ہونے کی صورت میں میں کاندھا دینے کی نیت ہو تو محض نیت پر اللہ تعالی کی ذات سے ثواب کی امید ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند