معاشرت >> دیگر
سوال نمبر: 63273
جواب نمبر: 63273
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 317-307/N=4/1437 (۱): وفات یا طلاق کی عدت کا مقصد صرف حمل ہونے، نہ ہونے کی تصدیق نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو حیض والی عورتوں میں صرف ایک حیض عدت ہوتی، مکمل تین حیض یا چار مہینہ دس دن ہوتی؛ کیوں کہ ایک بار حیض آنے سے حمل نہ ہونا متعین ہوجاتا ہے، نیز قرآن کریم کی کسی آیت میں یا کسی حدیث میں یہ بات نہیں آئی کہ عدت محض حمل کی تصدیق کے لیے ہوتی ہے، یہ محض عوام کی من گھڑت بات ہے، حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجة اللہ البالغہ میں عدت کی مختلف حکمتیں ومصلحتیں ذکر فرمائی ہیں، نیز شوہر کے انتقال پر حمل نہ ہونے کی صورت میں چار مہینہ دس دن عدت ہونا قرآن کریم سے صراحتاً ثابت ہے (سورہ بقرہ، آیت: ۲۳۴) ، اور ہم سب اللہ رب العزت کے بندے ہیں اورقرآن کریم کے منصوص احکام میں محض اپنی عقل سے رائے زنی شان بندگی کے قطعاً خلاف ہے۔ اور اسلام نے تو عدت وفات چار مہینہ دس دن ہی رکھی ہے، جب کہ زمانہ جاہلیت میں مکمل ایک سال عدت وفات ہوا کرتی تھی، بخاری ومسلم کی روایت میں ہے: حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ ایک عورت حضرت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس آئی اور عر ض کیا: یا رسول اللہ! میری بیٹی کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے (یعنی: وہ عدت وفات میں ہے) اور اس کی آنکھ میں تکلیف ہے تو کیا ہم اسے سرمہ لگاسکتے ہیں؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، دو مرتبہ یا تین مرتبہ، آپ نے ہر مرتبہ یہی فرمایا کہ نہیں۔ پھر فرمایا: یہ تو صرف چار مہینہ دس دن ہے، جب کہ زمانہ جاہلیت میں عورت ایک سال مکمل ہونے پر عدت سے نکلنے کے لیے مینگنی پھینکتی تھی (مشکوة شریف ص ۲۸۸، بحوالہ: صحیحین)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند