• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 62363

    عنوان: میرے بھائی نے کسی کو تقریبا 150000 روپئے دیئے ہیں، گاڑی کے آدھے پیسے ہوں گے جس سے اس نے گاڑی خریدی ، باقی پیسے اس نے دیئے ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس نے بھائی سے کہا کہ پیسے پورے کے پورے اس کے پاس ہیں ، لیکن جہاں بھی جس وقت چلنا ہو تو گاڑی میں لے جاسکتاہوں تو بھائی سودا لینے ہفتہ میں ایک بار یا دو بار چلتے ہیں جس کا بنتاہے 1800روپئے ، اور گاڑی والا بھائی کو فری لے جاتاہے ، اس کے علاوہ اشتراک بھی نہیں، گاڑی میں فرق آجائے یا حادثہ پیش آجائے تو بھائی کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ، اس کو پیسے جب چاہئے پورے مل سکتے ہیں ، گاڑی والا اکیلا ذمہ دار ہوگا اور نہ اس نے ماہوار کچھ دینا ہے تو یہ پیسے دینا اور گاڑی میں فری جانا کیسا ہے؟ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں ۔

    سوال: میرے بھائی نے کسی کو تقریبا 150000 روپئے دیئے ہیں، گاڑی کے آدھے پیسے ہوں گے جس سے اس نے گاڑی خریدی ، باقی پیسے اس نے دیئے ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس نے بھائی سے کہا کہ پیسے پورے کے پورے اس کے پاس ہیں ، لیکن جہاں بھی جس وقت چلنا ہو تو گاڑی میں لے جاسکتاہوں تو بھائی سودا لینے ہفتہ میں ایک بار یا دو بار چلتے ہیں جس کا بنتاہے 1800روپئے ، اور گاڑی والا بھائی کو فری لے جاتاہے ، اس کے علاوہ اشتراک بھی نہیں، گاڑی میں فرق آجائے یا حادثہ پیش آجائے تو بھائی کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ، اس کو پیسے جب چاہئے پورے مل سکتے ہیں ، گاڑی والا اکیلا ذمہ دار ہوگا اور نہ اس نے ماہوار کچھ دینا ہے تو یہ پیسے دینا اور گاڑی میں فری جانا کیسا ہے؟ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں ۔

    جواب نمبر: 62363

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 110-117/Sn=2/1437-U صورت مسئولہ میں جب دوسرے شخص نے آپ کے بھائی کو یہ کہہ دیا کہ پیسے پورے پورے اس کے پاس ہیں، اس کو جب چاہے پورے پیسے مل سکتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ رقم دوسرے شخص کے باس قرض ہے اور اس قرض کی بنا پر وہ آپ کے بھائی کو بلامعاوضہ گاڑی استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے حالاں کہ حدیث میں قرض دے کر اس سے نفع حاصل کرنے کی ممانعت آئی ہے اور اسے ”سود“ قرار دیا گیا ہے کل قرض جرّ منفعةً فہو ربو (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم: ۲۰۶۹۰)؛ لہٰذا آپ کے بھائی کے لیے قرض کی بنیاد پر اس شخص کی گاڑی سے فری سفر کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، یہ قرض دے کر ایک طرح کا سود حاصل کرنا ہوا جو از روئے حدیث ممنوع وناجائز ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند