• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 61401

    عنوان: کیا اسلام میں ناول نگاری بالکل حرام ہے؟

    سوال: آپ سے دعا خیر کی درخواست کرتا ہوں اور آپ سے اس مسئلہ پہ شرعی نصیحت چاہتا ہوں کہ کیا اسلام میں ناول نگاری حرام ہے ؟ اگرچہ میں اپنی تصنیف میں عموماً مذہبی اور دینی مضمون بیان نہیں کرتا مگر میں کسی غیر شرعی عمل (مثلاً زنا، عریانیت، شراب نوشی وغیرہ) کی حمایت نہیں کرتا. اس کے علاوہ میں کسی بھی طرح فحش تذکرات (جیسے جنسی تعلقات، گالی غلوچ)سے گریز کرتا ہوں. اسکے باوجود عموماً لوگوں کے منہ سے میں نے اسکو حرام ہی سنا ہے . کیا ہر طرح کی ناول حرام ہے ؟ کیا ناول نگاری کو ذریعہ روزی نہیں بنایا جا سکتا مہربانی کر کے اس مسئلہ پہ روشنی ڈالیں.

    جواب نمبر: 61401

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1065-1054/N=12/1436-U ناولوں میں عام طور پر عشقیہ وفحش مضامین وکہانیاں، اسلام اور اسلامیات (جیسے ڈاڑھی وغیرہ)پر مذاق واستہزا کی چیزیں،جرائم پیشہ افراد کی کہانیاں اور واقعات وغیرہ ہوتے ہیں، جن سے پڑھنے والوں کا ذہن اور اخلاق دونوں خراب ہوتے ہیں ، اسلام اور اسلامیات کی اہمیت ان کے ذہنوں میں کم ہوجاتی ہے ،لوگ ان ناولوں میں لگ کر اصل ذمہ داریوں سے اور نماز ،روزہ وغیرہ سے غافل ہوکر اپنے قیمتی اوقات ضائع کرتے ہیں، بعض لوگ ان میں لگ کر پوری پوری رات ضائع کردیتے ہیں اور ایسے لٹریچرس سے معاشرہ میں صلاح وبہتری کے بجائے فساد و بگاڑ میں اضافہ ہوتا ہے؛اس لیے ناول نگاری اور ناول خوانی دونوں ناجائز وممنوع ہیں اور یہ دونوں لہو ناجائز میں داخل ہیں، جس سے قرآن پاک میں منع کیا گیا ہے۔ قال اللہ تعالی:إن الذین یحبون أن تشیع الفاحشة فی الذین آمنوا لھم عذاب ألیم فی الدنیا والآخرة،واللہ یعلم وأنتم لا تعلمون (سورہ نور، آیت:۱۹)، وقال أیضاً في مقام آخر:ومن الناس من یشتري لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم الآیة(سورہ لقمان، آیت:۶)، وقال التھانوي في أحکام القرآن (۳: ۲۰۰، ۲۰۱):وفذلکة الکلام أن اللھو علی أنواع؛ لھو مجرد، ولھو فیہ نفع وفائدة ولکن ورد الشرع بالنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد فی الشرع نھي صریح عنہ ولکنہ ثبت بالتجربة أنہ یکون ضررہ أعظم من نفعہ ملتحق بالمنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد الشرع بتحریمہ ولم یغلب علی نفعہ ضررہ ولکن یشتغل فیہ بقصد التلھي،ولھو فیہ فائدة مقصودة ولم یرد الشرع بتحریمہ ولیس فیہ مفسدة دینیة واشتغل بہ علی غرض صحیح لتحصیل الفائدة المطوبة لا بقصد التلھي، فھذہ خمسة أنواع، لا جائز فیھا إلا الأخیر الخامس فھو أیضاً لیس من إباحة اللھو في شییٴ؛بل إباحة ما کان لھواً صورة ثم خرج عن اللھویة بقصد صالح وغرض صحیح فلم یبق لھوا اھ معارف القرآن(۷:۲۰، ۲۱ مطبوعہ: ربانی بک ڈپو، دہلی) میں ہے:جمہور صحابہ وتابعین اور عامہ مفسرین کے نزدیک لہو الحدیث عام ہے تمام ان چیزوں کے لیے جو انسان کو اللہ کی عبادت اور یاد سے غفلت میں ڈالے، اس میں غناء، مزامیر بھی داخل ہے اور بیہودہ قصے کہانیاں بھی، امام بخاری نے اپنی کتاب الادب المفرد میں اور بیہقی نے اپنی سنن میں لہو الحدیث کی یہی تفسیر اختیار کی ہے ، اس میں فرمایا ہے کہ لہو الحدیث ھو الغناء وأشباھہ ،یعنی: لہو الحدیث سے مراد گانا اور اس کے مشابہ دوسری چیزیں ہیں (یعنی :جو چیزیں اللہ کی عبادت سے غافل کردیں )، اور سنن بیہقی میں ہے: اشتراء لہو الحدیث سے مراد گانے بجانے والے مرد یا عورت کو خریدنا یا اس کے امثال ایسی بیہودہ چیزوں کو خریدنا ہے جو اللہ کی یاد سے غافل کریں، ابن جریر نے بھی اسی عام معنی کو اختیار فرمایا ہے (روح ملخصاً)،اور ترمذی کی ایک روایت سے بھی یہی عموم ثابت ہوتا ہے ،جس میں آں حضرت کا یہ ارشاد ہے کہ گانے والی لونڈیوں کی تجارت نہ کرو اور پھر فرمایا کہ وفي مثل ھذا أنزلت ھذہ الآیة ومن الناس یشتری الخ۔ اور آگے ص ۲۳ پر ہے:عنوان: فحش اور فضول ناول یا فحش اشعار اور اہل باطل کی کتابیں بھی دیکھنا ناجائز ہے :اس زمانے میں بیشتر نوجوان فحش ناول یا جرائم پیشہ افراد کے حالات پر مشتمل قصے یا فحش اشعار دیکھنے کے عادی ہیں ،یہ سب چیزیں اسی قسم لہو حرام میں داخل ہیں الخ۔ آپ کے مسائل اور ان کا حل ( جدید تخریج شدہ ۸:۵۰۲مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند) میں ہے: سوال:کیا افسانہ وغیرہ لکھنا گناہ ہے؟ جواب:۔ جی ہاں! گناہ ہے اور بے فائدہ بھی۔ اس لیے اللہ تعالی نے اگر آپ کو قلمی صلاحیتوں سے نوازا ہے تو آپ دینیات کا مطالعہ کرکے اور علمائے کرام کے رابطہ میں رہ کر اصلاحی مضامین لکھنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کریں ، اس میں آپ کو دینی ودنیوی دونوں قسم کے فوائد حاصل ہوں گیإن شاء اللّٰہ تعالی۔اور اگر آپ سوال میں مذکور طریقہ پر ناول نگاری ہی کرنا چاہتے ہیں تو چوں کہ سوال سے آپ کے ناول کی پوری نوعیت واضح نہیں ہوتی ہے؛کیوں کہ اس میں منفی امور کا تو ذکر ہے ، مثبت امور کا ذکر نہیں ہے کہ آپ اپنی ناولوں میں کس طرح کی چیزیں لکھیں گے ،اور ممکن ہے کہ وہ چیزیں آپ کے ذہن میں تو صحیح ہوں،لیکن شرعی اعتبار سے صحیح نہ ہوں؛ اس لیے آپ کی ناولوں کی صحیح نوعیت واضح ہونے سے پہلے کچھ کہنا مشکل ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند