• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 611845

    عنوان:

    معذورین کو کرسی پر پیچھے کی طرف ٹیک لگاکر نماز پڑھنی چاہیے یا اسٹول پر؟

    سوال:

    عرض خدمت یہ ہے کہ ہماری مسجد میں اچھی خاصی تعداد ان نمازیوں کی ہے جو معذور ہیں یا گھٹنے کی تکلیف میں مبتلا ہیں؛ ایسے مصلیان کی خاطر کیا کرسی کا نظم کرنا بہتر ہے یا اسٹول وغیرہ کا. بہتر صورت کیا ہے؟ اور کیا بغیر شرعی عذر کے ٹیک لگا کر نماز پڑھنے سے نماز ہو جائے گی؟ اور کیا اسٹول پر نماز پر قدرت رکھنے کے باوجود کرسی پر نماز درست ہے؟

    براے کرم شریعت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 611845

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 860-192/TH-Mulhaqa=11/1443

     آج کل کرسی پر نماز کے سلسلہ میں بہت زیادہ بے احتیاطی پائی جاتی ہے، دیکھا جاتا ہے کہ اچھے خاصے لوگ بلاکسی جھجک وتامل کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ لیتے ہیں اور صحیح مسئلہ جاننے کی کوئی فکر نہیں کرتے، اور بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کرسی پر بیٹھ کر نماز، زمین پر بیٹھ کر (سجدہ میں زمین پر پیشانی رکھ کر)نماز کی طرح ہے، اور وہ فرض یا واجب نمازتو کھڑے ہوکر رکوع سجدے کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور سنت یا نفل نماز کرسی پر بیٹھ کر (سجدہ کے اشارے کے ساتھ)پڑھتے ہیں؛ جب کہ کرسی پر بیٹھ کر جو نماز پڑھی جاتی ہے، اس میں حقیقی سجدہ نہیں کیا جاتا؛ بلکہ سجدے کے لیے اشارہ کیا جاتا ہے؛

    اس لیے سب سے پہلے یہ واضح ہونا چاہیے کہ کرسی پر نماز ہر معذور کی جائز نہیں، صرف اُس معذور کی جائز ہے ، جو اپنے کسی عذر کی بنا پر کسی صورت میں زمین پر پیشانی رکھ کر سجدہ نہ کرسکے، یعنی: کرسی پر نماز کے جواز کے لیے زمین پر پیشانی رکھ کر سجدہ سے عاجز ہونا شرط ہے؛ ورنہ کرسی پر بیٹھ کر سجدہ کے لیے اشارے کے ساتھ نماز نہیں ہوگی۔

    پھر جو شخص حقیقت میں معذور ہے، وہ اگر زمین پر بیٹھ کر (سجدے کے لیے اشارے کے ساتھ) نماز پڑھ سکتا ہے، تو اُس کے لیے کرسی کے بجائے زمین پر بیٹھ کر (سجدے کے لیے اشارہ کے ساتھ) نماز پڑھنا اولی ہوگا، کرسی پر نماز پڑھنا خلاف اولی ہوگا۔

    نیز جو شخص کرسی پر بیٹھ کر (سجدہ کے لیے اشارے کے ساتھ) نماز پڑھے ، اُسے کرسی پر اس طرح بیٹھنا چاہیے کہ پیچھے کی جانب کرسی کی ٹیک وسہارا حاصل نہ کرے؛ کیوں کہ بلا عذر ٹیک لگانا فرض نماز میں مکروہ تحریمی اور نفل میں مکروہ تنزیہی ہے، اور اگر عذر ہو، تو کچھ کراہت نہیں؛ جب کہ آج کل کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والوں میں بہت سے لوگ فرائض ونوافل سب میں بلا عذر کرسی کی ٹیک لے کر نماز پڑھتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے مناسب ہے کہ وہ کرسی کے بجائے اسٹول پر بیٹھ کر نماز پڑھا کریں، اور معذور نمازیوں میں اس قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں؛ اس لیے کچھ اسٹولس کا بھی نظم کردیا جائے تو بہتر ہے۔

    (وإن تعذرا) لیس تعذرہما شرطا؛ بل تعذر السجود کاف (لا القیام أومأ)… قاعداً، وھو أفضل من الإیماء قائماً لقربہ من السجود (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المریض، ۲:۵۶۷، ۵۶۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    قولہ: ”لقربہ من السجود“:أي: فیکون أشبہ بالسجود، منح (رد المحتار)۔

    قلت:فإن صلی وکان یستطیع أن یقوم ولا یستطیع أن یسجد؟ قال: یصلي قاعداً یومي إیماء۔ قلت: فإن صلی قائماً یوٴمی إیماء؟ قال: یجزیہ (کتاب الأصل المعروف بالمبسوط للشیباني، کتاب الطھارة والصلاة، باب صلاة المریض فی الفریضة، ۱: ۲۰۷، ط:عالم الکتب، الریاض)۔

    ویکرہ …الاتکاء علی العصا من غیرعذر في الفرائض دون التطوع علی الأصح کذا في الزاھدي (الفتاوی الھندیة، کتاب الصلاة، الباب السابع في ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، الفصل الثاني في ما یکرہ في الصلاة وما لا یکرہ، ۱: ۱۰۷، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

    ویکرہ أن یصلي وھو یعتمد علی حائط أو أسطوانة من غیر عذر ولا بأس بذلک في التطوع (الفتاوی الخانیة علی ھامش الفتاوی الھندیة، کتاب الصلاة، باب الحدث في الصلاة، فصل في ما یکرہ فیھا و في ما لا یکرہ ، ۱: ۱۱۹، ۱۲۰، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

    وللمتطوع أن یتکیٴ علی شیٴ إن أعیا) أي: تعب؛ لأنہ عذر، أطلق في الشیٴ، فشمل العصا والحائط۔ وأشار إلی أن لہ أن یقعد أیضاً عند أبي حنیفہ وعندھما: لا یجوز لہ القعود إلا إذا عجز لما مر من قبل، وقید بقولہ: ”إن أعیا“؛ لأن الاتکاء مکروہ بغیر عذر؛ لأنہ إساء ة في الأدب، وفیہ اختلاف المشایخ، والصحیح کراھتہ من غیر عذر وعدم کراھة القعود من غیر عذر عندہ (البحر الرائق، کتاب الصلاة، باب صلاة المریض، ۲: ۲۰۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (وجاز للمتطوع الاتکاء علی شیٴ) کعصا وحائط وخادم (إن تعب)؛ لأنہ عذر کما جاز أن یقعد (بلا کراھة وإن کان)الاتکاء (بغیر عذر کرہ في الأظھرلإساء ة الأدب) بخلاف القعود بغیر عذر بعد القیام (مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوي علیہ، ص: ۴۰۷ ، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)۔

    قولہ: ”کرہ في الأظھر“: أي: تنزیھا بدلیل التعلیل۔ قولہ: ”بخلاف القعود“: فإنہ لا کراھة فیہ علی الأصح (حاشیة الطحطاوي علی المراقي)۔

    وانظر الدر المختار ورد المحتار (کتاب الصلاة، باب صلاة المریض، ۲: ۵۷۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند۔ ۴: ۵۴۷، ت: الفرفور، ط: دمشق) أیضاً ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند