• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 610507

    عنوان:

    صاحب حق كا پتہ لگانا ممكن نہ ہو تو ان پیسوں كا كیا كیاجائے؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و شرع متین ، 25 سال پہلے زید نے جان بجھ کر کچھ لوگ ( جس میں تھوڑا بہت جان نے اور انجاے لوگ بھی ہیں ) ان سے یہ کہہ کر مارکیٹ ریٹ سے 70 % یا 80 % کم میں مال دلاتا ہوں بول کر ان لوگوں کو ( پہلے زید جن لوگوں سے چیٹ ہوا ) ان کے پس بلا لیکر جا کر کچھ مال کے سیمپل (نمونہ)   بتا کر پیسہ دلواتا تھا پِھر جو لوگوں رقم دی وہ لوگ ان لوگوں کے پس چکر لگاتے تھے نا مال نا پیسہ کچھ نہیں ملتا، زید اِس میں دلالی کر كے کبھی اس رقم میں 40 % کا حصہ لیتا تھا آج اِس بات کو ہوئے لگ بھاگ 25 / 30 سال ہو گئے، آج زید کو ندامت ہے، رب سے معافی کا خواستگار ہے، اور جو لوگ رقم دے کر چیٹ ہوئے ان کا ایڈریس اور نام وغیرہ بھی پتہ نہیں، اب وہ لوگ کہاں پر ہیں یہ بھی معلوم نہیں۔ زید کو اب یہ بھی یاد نہیں کتنی رقم اس نے کھائی ۔

    آپ سے درخواست ہے کہ اِس مسئلے پر رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 610507

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 605-494/H-Mulhaqa=09/1443

     صورت مسئولہ میں آپ نے ناحق طور پر لوگوں کا جو پیسہ لیا ہے، غور وفکر کرکے اس کی مقدار کا ندازہ لگائیں، اور اندازہ میں زیادہ ہی رقم لیں، کم نہ لیں، پھر اگر حق والوں یا اُن کے وارثین کا کچھ پتہ نہ ہو اور پتہ لگانا ممکن بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں آپ وہ پیسہ حق والوں کی طرف سے غریبوں کو دیدیں اور جو غلطی وکوتاہی ہوئی، اس سے سچی پکی توبہ کریں اور استغفار کریں، إن شاء اللّٰہ تعالٰیآخرت میں آپ کا ذمہ بری ہوجائے گا۔

    (علیہ دیون ومظالم جھل أربابھا وأیس)من علیہ ذلک (من معرفتھم فعلیہ التصدق بقدرھا من مالہ وإن استغرقت جمیع مالہ)…(و) متی فعل ذلک (سقط عنہ المطالبة) من أصحاب الدیون (في العقبٰی)، مجتبی (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب اللقطة، ۶: ۴۴۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۳: ۲۰۸، ۲۰۹، ت: الفرفورم ط: دمشق)۔

    قولہ: ”جھل أربابھا“:یشمل ورثتھم، فلو علمھم لزمہ الدفع إلیھم؛ لأن الدین صار حقھم۔ (رد المحتار)۔

    ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (المصدر السابق، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند نقلاً عن الزیلعي في التبیین عن النھایة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند