• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 608519

    عنوان:

    گناہوں سے توبہ کے بعد وسوسہ ، کسی کا دل دکھانے کا کفارہ ، حرام مال کھانے کی تلافی

    سوال:

    آپ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے حضرت میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نا چاہتے ہوئے بھی کئی گبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو چکا ہوں اس کے بعد میں نے اللٰہ سے سچی پکی توبہ کر لی ہے اب میں گناہوں کے قریب بھی نہیں بھٹکنا چاہتا نیک اور پاکیزہ زندگی گزارنا چاہتا ہوں ہر وہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو اللہ کی رضا کا سبب بنے لیکن جب نماز یا دیگر اذکار کرتا ہوں تو بہت سارے الٹے سیدھے خیالات ذہن میں آنے لگتے ہیں یکسوئی حاصل نہیں ہو پاتی میں ایک نیک اور پرہیزگار متقی بندہ بننا چاہتا ہوں میری رہنما?ی کیجیے میں اس کے لیے کون کون سے نیک اعمال کروں جس سے اللہ کا قرب نصیب ہو جاے میں باہر ملک سعودی میں ہوں اس لیے کسی شیخ سے بیعت بھی نہیں ہو سکتا آپ ہی لوگ رہنمائی کریں تاکہ میں دنیا و آخرت میں سرخ رو ہو سکوں۔

    ۲ - اگر کسی کا دل دکھا دیا ہو کسی وجہ سے اس معافی مانگنے کا کوئی راستہ نا ہو تو کیا جا ئے ؟

    ۳ -اگر حرام مال کھا لیا غلطی سے یا جان بوجھ کر پھر توفیق ہو جاے تو لوٹانے کا ارادہ بھی رکھتا ہو تو جب تک وہ ادا نا کر دے تب تک اسکا کوئی نیک عمل قبول ہوگا یا نہیں یا اس کو وہ چیز لوٹانے کے بعد ہی نیک اعمال قبول کیے جاینگے ؟ رہنمائی فرمادیں۔ اللہ آپ سب حضرات کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔

    جواب نمبر: 608519

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:273-116/TD-Mulhaqa=6/1443

     (۱)جب آپ نے سچی پکی توبہ کرلی ہے اور نیک اعمال کا اہتمام کررہے ہیں تو اب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے، اگر بندہ سچے دل سے توبہ کرلیتا ہے اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کرلیتا ہے تو اللہ تعالی معاف فرمادیتے ہیں ، اب فرائض کا اہتمام کریں اور گناہوں سے خاص طور پر بچنے کی کوشش کرتے رہیں ، حدیث میں ہے کہ محرمات سے بچنے والا بندہ اللہ تعالی کا سب سے زیادہ عبادت گذار بندہ بن جاتا ہے، اتق المحارم تکن أعبد الناس ( ترمذی) اور نیک اعمال کے وقت اگر وسوسے آئیں تو ان کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے ۔ (۲) اول تو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ جس شخص کا دل دکھایا ہے، اس کو تلاش کرکے معافی مانگے، اس سلسلے میں بالکل شرم نہیں کرنی چاہیے اور اگرکوئی شکل نہ بن سکے تو ایسے شخص کے لیے کثرت سے دعا ئے خیر کی جائے، اس کے لیے ایصال ثواب کیا جائے، انشاء اللہ حق تعالی اس کو راضی فرمادیں گے ۔

    قال الامام الغزالی: اعلم أن الواجب علی المغتاب أن یندم ویتوب ویتأسف علی ما فعلہ لیخرج بہ من حق اللہ سبحانہ۔۔۔وقالت عائشة رضی اللہ عنہا لامرأة قالت لأخری أنہا طویلة الذیل قد اغتبتیہا فاستحلیہا فإذن لا بد من الاستحلال إن قدر علیہ فإن کان غائبا أو میتا فینبغی أن یکثر لہ الاستغفار والدعاء ویکثر من الحسنات۔ ( احیاء علوم الدین : ۵۳/۳، ۱۵۴، کتاب آفات اللسان ، دار المعرفة، بیروت ) قال ابن عابدین: قال الإمام الغزالی وغیرہ وقال أیضا: فإن غاب أو مات فقد فات أمرہ، ولا یدرک إلا بکثرة الحسنات لتوٴخذ عوضا فی القیامة۔ ( رد المحتار: ۴۱۱/۶، دار الفکر، بیروت

    نیز دیکھیے: خیر الارشاد لحقوق العباد ، وعظ : حکیم الامت حضرت تھانوی ۔ ناقل : حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی ،آپ کے مسائل اور ان کا حل : ۳۸۶/۲، مکتبہ لدھیانوی، فتاوی محمودیہ: ۳۹۸/۲۹، میرٹھ ۔ (۳) حرام مال کھانے سے مراد اگر یہ ہے کہ کسی شخص کا مال چوری، غصب وغیرہ کے ذریعے کھالیا تو جتنا مال کھایا ہے، اتنا صاحب حق کو لوٹانا ضروری ہے، اس کے بغیر معافی نہیں ہوگی اور اگر صاحب حق انتقال کرچکا ہو تو اس کے ورثاء تک پہنچانا ضروری ہے اور اگر صاحب حق کا پتہ نہ ہو تو اس کی طرف سے غریبوں کو صدقہ کرنا ضروری ہے اور اگرحرام مال جو کھایا ہے وہ کسی کا حق نہیں تھا، بلکہ ناجائز ملازمت کی صورت میں حرام آمدنی استعمال کی، تو ثواب کی نیت کے بغیر اتنی رقم غریبوں کو دیدیں اوراگر غلطی سے کچھ حرام کھا لیا ہو تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ سچے دل سے اُس سے توبہ کر لے اور کچھ صدقہ بھی نکال دے ،امید ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے،حدیث شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے تاجروں کی جماعت! بے شک خرید وفروخت کے وقت غلط بیانی، یا غیر واقعی قسمیں شامل ہوجاتی ہیں( جن کی وجہ سے کمائی مکمل حلال نہیں ہوتی، آمدنی مشکوک ہوجاتی ہے) لہٰذا اسے صدقہ سے ملالیا کرو۔ (یعنی صدقہ نکالا کرو؛ تاکہ جتنا حصہ آمدنی کا مشکوک ہو صدقے سے اس کا اثر اور اللہ تعالیٰ کا غضب ٹھنڈا ہوجائے)

    عن قیس بن ابی غرزة قال: کنا نسمی فی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "السماسرة"، فمر بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فسمانا باسم ہو احسن منہ، فقال: یا معشر التجار! ان البیع یحضرہ اللغو والحلف، فشوبوہ بالصدقة. رواہ ابوداوٴد والترمذی والنسائی ابن ماجہ". (مشکاة المصابیح، باب المساہلة فی المعاملة، الفصل الاول)

    اور حرام کھانے کی وجہ سے عمل کے قبول نہ ہونے کے بارے میں حدیث میں چالیس دن کی تصریح ہے،یعنی بندہ جب حرام لقمہ پیٹ میں ڈال لیتا ہے تو چالیس دن تک اُس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا ،پس اگر کسی نے چالیس دن تک صاحب حق کا حق واپس نہیں کیا؛ البتہ جلد از جلد واپس کرنے کا پختہ عزم ہے تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ چالیس دن کے بعد اس کے اعمال قبول ہوں گے، واضح رہے کہ حدیث میں قبول نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اعمال کے قبول ہونے پر جو اجر و ثواب ملتاوہ نہیں ملے گا؛ البتہ ذمہ سے فرض ساقط ہو جائے گا مثلاً نماز اِس حالت میں پڑھ لی تو اُس پر ادائیگی کا حکم ہوگا اُس کا لوٹانا واجب نہ ہوگا ۔

    عن ابن عباس قال: تلیت ہذہ الآیة عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: {یا أیہا الناس کلوا مما فی الأرض حلالا طیبا} فقام سعد بن أبی وقاص، فقال: یا رسول اللہ، ادع اللہ أن یجعلنی مستجاب الدعوة، فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم: یا سعد أطب مطعمک تکن مستجاب الدعوة، والذی نفس محمد بیدہ، إن العبد لیقذف اللقمة الحرام فی جوفہ ما یتقبل منہ عمل أربعین یوما، وأیما عبد نبت لحمہ من السحت والربا فالنار أولی بہ۔ (المعجم الاوسط، رقم : ۶۴۹۵)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند