• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 605798

    عنوان:

    اگر کسی جِن نے اللہ کے نبی کو ایمان کی حالت میں دیکھا ہو تو کیا وہ بھی انسانوں کی طرح صحابیِ رسول کہلائے گا ؟

    سوال:

    ہماری مسجد میں ایک تبلیغ کے ذمہ دار ساتھی ہے انھوں نے جماعت میں ایک جِن سے ملاقات کی تھی (جِن ظاہر ہوا تھا) اور اس جِن نے اللہ کے نبی کی اپنی آنکھوں سے زیارت کی تھی تو کیا وہ جِن بھی انسانوں کی طرح صحابیِ رسول کہلا? گا اگر جِن صحابیِ رسول ہوا تو کیا جِن کو دیکھنے والا شخص تابعین کہلائے گا ؟

    جواب نمبر: 605798

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1231-331T/D=01/1443

     حدیث شریف میں آیا ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ”خیر القرون قرني ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم“ سب سے بہتر زمانہ میرا ہے، پھر وہ لوگ جو میرے بعد میں ہوں گے یعنی صحابہ کرام، پھر اس کے بعد والے یعنی تابعین ہوں گے۔ صحابہ کرام کا وجود تو پہلی صدی ہجری یعنی 120 ہجری کے اندر ہی ختم ہوچکا تھا۔ اور تابعین بھی 200 ہجری کے اندر ہی سب ختم ہوچکے تھے۔ (۱)

    اور آج تو 1400 سال گذر گئے آج کہاں سے تابعی آجائے گا۔ (۲)

    رہا جنات کا معاملہ تو وہ ہمارے لیے سند نہیں ہے۔ جن صحابی کو دیکھنے والا بعض حضرات کے نزدیک تابعی کہلائے گا بہ شرطے کہ جن کے صحابی ہونے کا یقین ہوجائے؛ لیکن یہاں بجز اس کے قول کے دوسرا کوئی ذریعہ نہیں ہے اس لیے یقین کرنا مشکل ہے اور اس کو دیکھنے والے کو تابعی کہنا بھی مشکل ہے۔(۳)

    بعض حضرات کے نزدیک جس جن نے صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ہے بہ صورت صدق اس کی ملاقات سے برکت تو حاصل ہوسکتی ہے، مگر تابعیت کی وہ خصوصیت و شرف جس کے متعلق فرمان نبوی ”خیر امتی قرني ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم“ وارد ہے حاصل نہ ہوگا، اس لیے کہ یہ فضیلت قرن کے متعلق ارشاد فرمائی گئی ہے۔ دیکھئے: الیواقیت الغالیة: 1/382۔

    ------------------

    (۱) وقد ظہر أن الذي بین البعثة وآخر من مات من الصحابة مائة سنة وعشرون سنة أو دونہا أو فوقہا بقلیل علی الاختلاف في وفاة أبي الطفیل، ․․․․ وأما قرن التابعین فإن اعتبر من سنة مائة کان نحو سبعین أو ثمانین۔ (فتح الباری: 7/8، فضائل أصحاب النبي)

    (۲) وأما الشرط الثاني- وہو المعاصرة - فیعتبر بمضيّ مائة سنة وعشر سنین من ہجرة النبي صلی اللہ علیہ وسلم، لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم في آخر عمرہ لأصحابہ: ”أرأیتکم لیلتکم ہذہ؟ فإن علی رأس مائة سنة منہا لا یبقی علی وجہ الأرض ممن ہو الیوم علیہا أحدٌ“ رواہ البخاري، ومسلم من حدیث ابن عمر ․․․․․․

    ولہذہ النکتة لم یصدّق الأئمة أحدا ادعی الصحبة بعد الغایة المذکورة، وقد ادعاہا جماعة فکذّبوا، وکان آخرہم رتن الہندي۔ (الإصابة في تمیز الصحابة، مقدمہ: 20,21)۔

    (۳) ثم من لم یعرف حالہ إلا من جہة نفسہ، فمقتضی کلام الآمدي الذي سبق ومن تبعہ ألاّ ثبت صحبتہ۔ ونقل أبوالحسن ابن القطّان فیہ الخلاف، ورجّح عدم الثبوت، وأما ابن عبد البرّ وجزم بالقول بناءً علی أن الظاہر سلامتہ من الجرح۔ (مقدمہ الإصابة في تمیز الصحابة: 21)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند