• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 602868

    عنوان:

    والدہ کا اپنی حیات میں جائداد کا واپس کرنا

    سوال:

    بعد سلام عرض ہے ایک مسئلہ میں آپ علماء کرام کے رہنمائی چاہیے ، آج سے تقریباً 25 سال پہلے میں اور میرے بڑے بھائی نے والدہ محترمہ کو ایک فلیٹ دیا اور 2 گواہ کی مو جودگی میں دے دیا اور فلیٹ کے کاغذات بھی ان کے نام کردیا․ ہم سب اسے فلیٹ میں رہائش تھے ․ پھر اللہ نے برکت عطا فرمائی سب بھائی بھن الگ مکان میں رہا ئش ہوگئے ․ اپ والدہ محترمہ اپنی حیاتی میں ہم 2 بھائی کو یہ فلیٹ دے دہی ہے ، کیونکہ ابھی ہمیں مالی مشکلات ہے ، اور ہماری امداد کرنا چاہتی ہے آپ سے معلوم کرنا ہے کہ والدہ محترمہ ہمیں فلیٹ واپس دے سکتی ہیں ؟ رہنمائی فرمائیں ۔

    جواب نمبر: 602868

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 510-99T/D=07/1442

     آپ دونوں صاحبزادگان نے فلیٹ والدہ کو زبانی ہبہ کرکے فلیٹ کے کاغذات بھی ان کے نام کردیئے پھر اگر فلیٹ مکمل طور پر ان کے قبضہ میں دے دیا گیا تو ہبہ مکمل ہوکر والدہ اس فلیٹ کی مالک ہوگئیں اور والدہ کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ جس طرح چاہیں تصرف کریں اگر اولاد کو ہبہ کرتی ہیں تو ان کے لئے مستحب اور بہتر یہ ہے کہ تمام اولاد لڑکے لڑکی کو برابر برابر دیں یا حق وراثت کے اعتبار سے ہر لڑکے کو دوگنا اور ہر لڑکی کو ایک ایک حصہ دیں تو یہ بھی جائز ہے اور بعض ترجیحی وجہ سے مثلا کسی کے دین دار ہونے یا کسی کے زیادہ ضرورت مند ہونے کی وجہ کچھ زیادہ دے دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے لیکن بعض اولاد کو دینا اور بعض کو محروم کردینا (یعنی نہ فلیٹ میں حصہ دیں نہ اس کے بدلے دوسری چیزیں) مکروہ ہے۔

    اور اگر زبانی اور تحریری ہبہ تو کیا مگر قبضہ اپنا ہی رکھا اس میں رہتے رہے والدہ کو مکمل قبضہ دخل کسی بھی طرح نہیں دیا تو پھر ہبہ مکمل نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہے تو اس کی پوری نوعیت واضح کرکے دوبارہ سوال کریں۔

    قال فی الدر: وشرائط صحتہا فی الموہوب أن یکون مقبوضاً غیر مشاع ممیزاً غیر مشغول (الدر مع الرد: 4/567 کوئٹہ)

    لو وہب رجل شیئا لأولادہ فی الصحة وأراد تفضیل البعض ․․․․․․ روي عن أبي حنیفة -رحمہ اللہ- أنہ لا بأس بہ إذا کان التفضیل لزیادة فضل لہ في الدین، وإن کانا سواء یکرہ وروی المعلی عن أبي یوسف -رحمہ اللہ- أنہ لا بأس بہ إذا لم یقصد بہ الإضرار، وإن قصد بہ الإضرار سَوَّی بینہم یعطي الابنة مثل ما یعطي للابن وعلیہ الفتویٰ ہکذا فی فتاوی قاضی خاں وہو المختار کذا فی الظہیریة (ہندیة: 4/391، زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند