• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 601499

    عنوان:

    كیا دین پر عمل كرنے كے لیے اسلامی نظام حكومت ضروری ہے؟

    سوال:

    ہمارے ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نہ صرف دین سکھانے بلکہ دین کو دنیا میں قائم اور تمام ادیان ر غالب کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے۔(لِیُظھِرَ ہُ عَلی الدِّینِ کُلِّہ) سے اس کی دلیل پیش کرتے ہیں۔کیا انکا یہ کہنا صحیح ہے؟ نیز یہ بھی کہتے ہیں کہ بغیر حکومت کے دین پر مکمل طور پر عمل کرنا ممکن نہیں اور یہ کہ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ 'ایک نہایت ہی اہم بات یہ ہے کہ شرعی حکومت کے بغیر شریعت پر پورا عمل نہیں ہو سکتا'(تاریخِ دعوت و عظیمت جلد ششم 57،58) کیا انکی یہ تمام باتیں درست ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل و مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 601499

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:362-124T/L=10/1442

     اسلام ایک جامع طریقہ حیات ہے اس کے بہت سے شعبہ جات ہیں ان میں سے ایک شعبہ سیاست اور اسلامی نظام حکومت بھی ہے ، اور اس سے اسلام کے بہت سے احکام وابستہ ہیں جن پر اس کے بغیر عمل درآمد نہیں ہوسکتا مگر اس کو اسلام کا مقصد اصلی کہنا درست نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو اسلام کی بنیاد نہیں قرار دیا ایک حدیث پاک میں پانچ چیزوں کو اسلام کی بنیاد قرار دیا ہے ان میں حکومت کے قیام کا تذکرہ نہیں ہے، پس اگر حکومت الہیہ کا قیام ہوجائے اور اس کیلیے جدو جہد کی جائے تو یہ قابل ستائش ہے ؛لیکن اس کو اسلام کا مقصد اصلی کہنا درست نہیں (مستفاد از محاضرہ بر موضوع رد مودودیت ۹۲/۳) جہاں تک آیت کریمہ ”لیظہرہ علی الدین کلہ“ کا تعلق ہے تو اس میں دلیل و حجت کے اعتبار سے اسلام کا غلبہ مراد ہے اور یہ ہرزمانے میں رہا ہے ؛کیونکہ اسلام حددرجہ فطرت سے ہم آہنگ اور مصلحتوں اور حکمتوں کے موافق ہے ۔

    قَوْلُہُ تَعَالَی:﴿ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَہُ﴾ یُرِیدُ مُحَمَّدًا ﷺ․ (بِالْہُدی)أَیْ بِالْفُرْقَان․ (وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ) أَیْ بِالْحُجَّةِ وَالْبَرَاہِینِ. وَقَدْ أَظْہَرَہُ عَلَی شَرَائِعِ الدین حتی لا یخفی علیہ شی مِنْہَا، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَغَیْرِہِ. وَقِیلَ: "لِیُظْہِرَہُ" أَیْ لِیُظْہِرَ الدِّینَ دِینَ الْإِسْلَامِ عَلَی کُلِّ دِینٍ. قَالَ أَبُو ہُرَیْرَةَ وَالضَّحَّاکُ: ہَذَا عِنْدَ نُزُولِ عِیسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ. وَقَالَ السُّدِّیُّ: ذَاکَ عِنْدَ خُرُوجِ الْمَہْدِیِّ، لَا یَبْقَی أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ فِی الْإِسْلَامِ أَوْ أَدَّی الْجِزْیَةَ. وَقِیلَ: الْمَہْدِیُّ ہُوَ عِیسَی فَقَطْ وَہُوَ غَیْرُ صَحِیحٍ لِأَنَّ الْأَخْبَارَ الصِّحَاحَ قَدْ تَوَاتَرَتْ عَلَی أَنَّ الْمَہْدِیَّ مِنْ عِتْرَةِ رَسُولِ اللَّہِ ﷺ، فَلَا یَجُوزُ حَمْلُہُ عَلَی عِیسَی. وَالْحَدِیثُ الَّذِی وَرَدَ فِی أَنَّہُ (لَا مَہْدِیَّ إِلَّا عِیسَی) غَیْرُ صَحِیحٍ. قَالَ الْبَیْہَقِیُّ فِی کِتَابِ الْبَعْثِ وَالنُّشُورِ: لِأَنَّ رَاوِیَہُ مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الْجُنْدِیُّ وَہُوَ مَجْہُولٌ، یَرْوِی عَنْ أَبَانِ بْنِ أَبِی عَیَّاشٍ- وَہُوَ مَتْرُوکٌ- عَنِ الْحَسَنِ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ، وَہُوَ مُنْقَطِعٌ. وَالْأَحَادِیثُ الَّتِی قَبْلَہُ فِی التَّنْصِیصِ عَلَی خُرُوجِ الْمَہْدِیِّ، وَفِیہَا بَیَانُ کَوْنِ الْمَہْدِیِّ مِنْ عِتْرَةِ رَسُولِ اللَّہِ ﷺ أَصَحُّ إِسْنَادًا. قُلْتُ: قَدْ ذَکَرْنَا ہَذَا وَزِدْنَاہُ بَیَانًا فِی کِتَابِنَا (کِتَابِ التَّذْکِرَةِ) وَذَکَرْنَا أَخْبَارَ الْمَہْدِیِّ مُسْتَوْفَاةً وَالْحَمْدُ لِلَّہِ. وَقِیلَ: أَرَادَ "لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ" فِی جزیرة العرب، وقد فعل.(الجامع لأحکام القرآن القرطبی (۱۷۶ہ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند