• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 58989

    عنوان: فجر کے بعد سونے سے مفلسی آتی ہے یہ بات کسی حدیث سے ثابت ہے ؟ اگر ہے تو کیا تھوڑی دیر سونے کے بعد پوری رات ذکر تلاوت میں مشغول رہنے والے پر بھی یہ حکم لا گو ہوگا؟ کیوں کہ وہ فجر بعد تھوڑی دیر سوجاتاہے پھر اٹھ کر اشراق اور چاشت پڑھتاہے۔

    سوال: فجر کے بعد سونے سے مفلسی آتی ہے یہ بات کسی حدیث سے ثابت ہے ؟ اگر ہے تو کیا تھوڑی دیر سونے کے بعد پوری رات ذکر تلاوت میں مشغول رہنے والے پر بھی یہ حکم لا گو ہوگا؟ کیوں کہ وہ فجر بعد تھوڑی دیر سوجاتاہے پھر اٹھ کر اشراق اور چاشت پڑھتاہے۔

    جواب نمبر: 58989

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 487-452/Sn=7/1436-U مسند احمد ۵۲۹۰، شعب الایمان ۴۴۰۲، شرح مشکل الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں ایک ضعیف روایت ان الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے، قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الصبحة تمنع الرزق یعنی صبح کے قت سونا رزق میں بے برکتی کا سبب ہے، فقہائے کرام نے بھی صبح کے وقت سونے کو مکروہ قرار دیا ہے، قال في الہندیة: ویکرہ في أول النہار وفیما بین ا لمغرب والعشاء (۵/۳۷۶، دار الکتاب دیوبند) ”صبح کے وقت“ سے کیا مراد ہے اس کی تعیین ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک مخلوق کے لیے رزق تقسیم کرتے ہیں یعنی جو لوگ اس پورے وقت میں غافل رہتے ہیں وہ رزق کی برکت سے محروم رہتے ہیں اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ ممانعت صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک پورے درمیانی وقت میں سونے میں ہے؛ لہٰذا اگر کوئی شخص نماز فجر کے بعد تھوڑی دیر تسبیحات وغیرہ میں لگا رہے اور سوج طلوع ہونے کے بعد سوئے تو اس کے حق میں کوئی قباحت وکراہت نہیں رہے گی، بعض بزرگوں کا اس طرح کا معمول رہا ہے۔ عن فاطمة بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم قالت: مرَّ بي رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- وأنا مضطجعة متصبحة، فحرکني برجلہ ثم قال: یا بنیّة قومي واشہدي رزق ربّک، ولا تکوني من الغافلین؛ فإن اللہ یقسم أرزاق الناس ما بین طلوع الفجر إلی طلوع الشمس“ إسنادہ ضعیف (شعب الإیمان، ۴۴۰۵، فصل في ا لنوم الذي نعمة اللہ الخ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند