• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 58779

    عنوان: اگر باپ دیندار ہوتے ہوئے بھی اخلاقیات کے معاملے میں غلط ہوں ، آپسی خاندانی جھگڑے کو کبھی درگذر نہ کریں ، ہمیشہ انا میں رہیں تو کیا ان کے بچوں کو چاہئے کہ وہ انہیں سمجھائیں ، یا پھر جو وہ کہیں غلط یا صحیح ان کا حکم مانے؟

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ اگر باپ دیندار ہوتے ہوئے بھی اخلاقیات کے معاملے میں غلط ہوں ، آپسی خاندانی جھگڑے کو کبھی درگذر نہ کریں ، ہمیشہ انا میں رہیں تو کیا ان کے بچوں کو چاہئے کہ وہ انہیں سمجھائیں ، یا پھر جو وہ کہیں غلط یا صحیح ان کا حکم مانے؟

    جواب نمبر: 58779

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 299-299/Sd=6/1436-U باپ کے آپسی خاندانی جھگڑوں کو درگذر نہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ بچوں کو کیسے معلوم ہوا کہ ان کے والد صاحب ہمیشہ انا میں رہتے ہیں ”انا“ کا تعلق تو دل سے ہے، جس کا علم تو صرف اللہ علام الغیوب ہی کو ے۔ بہرحال ! خلافِ شرع امور میں کسی کی اطاعت جائز نہیں اور جائز امور میں باپ کی اطاعت ضروری ہے، باپ کے اندر اگر دینی اعتبار سے کچھ کمی ہو، تو بچے حکمت، ادب اور حسن تدبیر کے ساتھ اس کی اصلاح کی خود بھی کوشش کرسکتے ہیں، بہتر یہ ہے کہ ایسی صورت میں وہ ایسے شخص سے نصیحت کرائیں جو مقام ومرتبے میں باپ کا مساوی یا اس سے اعلی ہو، اور خود بھی بچے دعا واستغفار کریں؛ لیکن باپ کے دینی امور میں کوتاہی کے باوجود بچوں کے لیے ہرگز یہ جائز نہیں ہے کہ وہ باپ کے ساتھ گستاخی سے پیش آئیں یا ادب واحترام میں کوئی کمی کریں۔ قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: لا طاعةَ لمخلوق في معصیة الخالق (مشکاة المصابیح، ص: ۳۲۱، کتاب الإمارة والقضاء، الفصل الثانی) وقال ابن عابدین: إذا رأی منکرًا من والدیہ یأمرہما مرةً، فإن قبلا فبہا، وإن کرہا، سکت عنہا، واشتغل بالدعاء والاستغفار لہما، فإن اللہ تعالی یکفیہ ما أہمہ من أمرہما․ (ردے المحتار، کتاب الحدود، باب التعزیر،مطلب في تعزیر المتہم) وقال في نفع المفتی: إن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر فیہ نفعة من أمرہ، ونہاہ عن المنکر، والأب أحق بما ینفع لہما؛ لکن ینبغي أن لا یعنف علی الوالدین، فإن قبلا، فبہا وإلا سکت واشتغل بالاستغفار لہما․ (نفع المفتي والسائل، ما یتعلق بإطاعة الوالدین، ص: ۴۲۳)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند