• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 56572

    عنوان: اجیر خاص اور طہارت الماء

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسائل کے متعلق : (1)میں ایک جنریٹر کی دکان میں ملازمت کرتا ہوں مجھے ماہانہ آٹھ ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے میں اس دکان کے جنریٹر فروخت کرتا ہوں بعض اوقات یہ صورت پیش آتی ہے کہ دکان کا مالک مجھے کہہ دیتا ہے کہ جنریٹر جو تیل سے چلتا ہے اس میں گیس سسٹم لگواؤ ۔میں اس کام کے لیے باہر سے مستری لاتا ہوں اور اس سے یہ سسٹم لگوا کر اس کو مثلاً آٹھ سو روپے دیتا ہوں پھر میں دکان کے مالک سے ایک ہزار روپے لیتا ہوں تو کیا میرے لیے یہ دو سو روپے جو میری تنخواہ کے علاوہ ہے لینا جائز ہے یا نہیں ؟ (2)ہم نے گندے اور ناپاک پانی کے لیے ایک کنواں بنایا تھااس کے قریب کچھ فاصلے پر صاف پانی کا کنواں (بورنگ)ہے ایک مرتبہ پریشر پمپ کا پائپ کسی نے اس گندے پانی کے کنویں میں ڈال دیا جس سے کنویں کا گندا پانی پریشر پمپ کے ذریعے بورنگ کے اندر چلا گیا اور پانی کا ذائقہ خراب ہو گیا پھر ہم نے بورنگ کے پانی کو پاک کرنے کے لیے ایک ہزار بالٹی پانی پریشر سے نکال کر بہایا لیکن ابھی تک پانی کا ذائقہ خراب سا ہے تو کیا مذکورہ صورت میں ایک ہزار بالٹیا ں نکالنے کے بعد بھی بدبو کی وجہ سے بورنگ کا پانی اور پریشر پمپ کا پائپ بدستور ناپاک رہے گا یا پاک ہو چکا ہے ؟اگر ناپاک ہے تو پاک ہونے کی کیا صورت ہو سکتی ہے ؟

    جواب نمبر: 56572

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 111-99/L=2/1436-U (۱) اگر مالک دوکان سے آپ الگ اجارہ کا معاملہ نہیں کرتے ہیں توآپ کے لیے مزید دو سو روپے بڑھاکر لینا جائز نہ ہوگا۔ (۲) جب پاک کنویں میں ناپاک کنویں کا پانی اتنی مقدارمیں مل گیا کہ بو بدل گئی تواُس کنویں کا پانی ناپاک ہوگیا وبتغییر أحد أوصافہ من لون أوطعم أو ریح بنجس الکثیر ولو جاریًا إجماعًا (شامي: ۱/۳۳۲) اب جب تک بدبو ہے وہ کنواں ناپاک رہے گا، اس کنویں کی پاکی کی صورت یہی ہے کہ اتنی مقدارمیں پانی نکال دیاجائے کہ بدبو زائل ہوجائے (الماء الجاري بعدما تغیر أحد أوصافہ وحکم بنجاستہ لا یحکم بطھارتہ ما لم یزل ذلک التغیر بأن یرد علیہ ماء طاھر حتی یزیل ذلک التغیر. کذا في المحیط (الہندیة: ۱/۳۰)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند