• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 53380

    عنوان: یک طرفہ شرط جسے عُرف میں شرط لگانا یا شرط بازی بھی کہتے ہیں کن کن أمور میں جائز ہے ؟

    سوال: زید عمرو کی دکان پر جوتا خریدنے گیا اور زید نے جوتے کا دام دریافت کیا ،عمرو نے جوتے کا دام ۴۵ روپیے بتایا،لہذا زید نے عمرو سے کہا کہ یہ جوتا بازار میں ۴۰ روپیے کے دام میں ملتا ہے ،تو عمرو نے زید سے کہا کہ اگر آپ یہ جوتا ۴۰ روپیے کا کہی سے لاکر مجھے دو تو میں آپ کو۲لاکھ روپیے بطور انعام کے دوں گا اور واقعی بازار میں یہ جوتا ایک دکان میں ۴۰ روپیے میں مل رہا تھا جس کا عمرو کو علم نہیں تھا زید وہاں سے یہ جوتا ۴۰ روپیے کا حقیقتاً بازار سے خرید کر لے آیا تو کیا عمرو کے لیے زید کو ۲ لاکھ روپیے بطور انعام کے دینا لازم ہے ؟ (۱)کیا زید کے لیے عمرو سے ۲ لاکھ روپیے لینا جائز ہے یا نہیں؟ (۲) کیا یہ معاملہ شرط بازی پر محمول ہوگا؟ (۳) یک طرفہ شرط جسے عُرف میں شرط لگانا یا شرط بازی بھی کہتے ہیں کن کن أمور میں جائز ہے ؟ (۴)کیا یک طرفہ شرط بازی مطلقاً جائز ہے یا کن شرائط کے ساتھ جائز ہے ،نیز صرف علمی مباحث میں ہی جائز ہے ؟واضح فرمایے ۔

    جواب نمبر: 53380

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 98-1043/N=9/1435-U (۱-۹) صورت مسئولہ میں عمرو نے زید سے جو کہا ہے یعنی: ”اگر آپ یہ جوتا ۴۰ / روپے کا کہیں سے لاکر مجھے دو تو میں آپکو ۲/ لاکھ روپے بطور انعام کے دوں گا“ وہ از قبیل استباق یا مسابقہ نہیں ہے؛ کیوں کہ استباق یا مسابقہ میں ایسے دو شخص ضرور ہیں جن کے درمیان کسی عمل میں مقابلہ اور ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی صورت پائی جائے جیسے گھوڑدوڑی اور تیراندازی وغیرہ میں مقابلہ، قال الإمام الشافعي رحمہ اللہ في الأم (کتاب السبق والنضال، ما ذکر في النضال ۵: ۵۵۷ ط دار الوفاء للطباعة والنشر والتوزیع، المنصورة): ”والنضال فیما بین الاثنین بسبق أحدہما الآخر“ اھ وفي ص ۵۷۰، ۵۷۱ منہ: ”وإذا قال الرجل للرجل: إن أصبت بہذا السہم فلک سبق فہذا جائز، ولیس ہذا من جہة النضال“ اھ، وقال ابن قدامہ في المغني (۱۳: ۴۳۰ ط دار عالم الکتب الریاض): إذا قال رجلٌ لآخر: ارم ہذا السہم فإن أصبت بہ فلک درہم صح وکان جعالة؛ لأنہ بذلک مالاً في فعل لہ فیہ غرض صحیح، ولم یکن ہذا نضالا؛ لأن النضال یکون بین اثنین أو جماعة علی أن یرموا جمیعًا ویکون الجعل لبعضہم إذا کان سابقًا“ اھ، نیز یہ ہبہ کو کسی امر متردد پر معلق کرنے کی صورت بھی نہیں ہے؛ کیوں کہ جزا میں وعدہٴ انعام کے الفاظ ہیں، انشائے ہبہ کے الفاظ نہیں ہیں، پس صورت مسئولہ میں شرط پائے جانے کی وجہ سے عمرو کی طرف سے زید کو بطور انعام ۲/ لاکھ روپے دینے کا وعدہ ہوا ہے، مگر چوں کہ یہ وعدہ بصورت تعلیق ہے؛ اس لیے از روئے شرع یہ لازم العمل ہوگا، درر الحکام شرح مجلة الإحکام (۱:۸۷)میں ہے: المادة: ”المواعید بصور التعالیق تکون لازمة“ لأنہ یظہر فیہا حینئذ معنی الالتزام والتعہد، ہذا المادة ماخوذة عن الأشباہ من کتاب ”الحظر والإباحة“ حیث یقول: ”ولا یلزم الموعد إلا إذا کان معلقًا“، وقد رودت في البزازیة أیضًا بالشکل الآتي: ”لما أن المواعید باکستاء صور التعلیق تکون لازمة“ اھ وانظر شرح المجلة سلیم رستم اللبنانی (۱:۵۶) أیضًا․ (۲) جی ہاں! جائز ہے۔ (۳ ۵) یہ معاملہ مسابقہ یا استباق کے قبیل سے نہیں ہے جیسا کہ نمبر ایک میں ذکر کیا گیا؛ اس لیے ان سوالات کے جواب کی حاجت نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند