متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 52923
جواب نمبر: 52923
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1012-1076/N=9/1435-U (۱) ایسی عورت کو طلاق دینا واجب نہیں، البتہ اگر سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود باز نہ آئے اور اس کی وجہ سے آدمی ذہنی اذیت کا شکار ہو تو طلاق دیدینا بہتر ہے، ”وفي آخر خطر المجتبی: لا یجب علی الزوج تطلیق الفاجرة“ (درمختار مع الشامي ۴: ۱۴۳، ۱۴۴ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)، ”وقولہم:‘الأصل فیہ الحظر” معناہ أن الشارع ترک ہذا الأصل فأباحہ، بل یستحب لو موٴذیة أو تارکة صلاة غایةً (درمختار مع الشامي ۴: ۴۲۷، ۴۲۸)، قولہ: ”لو موٴذیة“: أطلقہ فشمل الموٴذیة لہ أو لغیرہ بقولہ أو بفعلہا ط (شامي ۴: ۴۲۸)۔ (۲) مذہب اسلام میں جس طرح منھ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کے حکم میں نہیں ہوتا، اسی طرح کسی کو بھائی بنانے سے وہ حقیقی بھائی کے حکم میں نہیں ہوتا؛ لہٰذا عورت کا کسی اجنبی مرد کو بھائی بناکر اسے حقیقی بھائی کے درجہ میں سمجھنا اور اس کے ساتھ گھومنا پھرنا ہرگز جائز نہ ہوگا۔ (۳) نمبر ایک میں اس کا جواب آگیا۔ (۴) شرعی اعتبار سے شوہر کی اجازت ومرضی کے بغیر خلع نہیں ہوسکتا؛ لہٰذا اگر عدالت نے صرف بیوی کے کہنے پر اپنی جانب سے خلع دیا ہے تو از روئے شرع یہ خلع غیرمعتبر ہے اور عورت اپنے شوہر کے نکاح سے خارج نہیں ہوئی (تفصیل کے لیے فقہی مقالات، مقالہ: اسلام میں خلع کی حقیقت ۲: ۱۳۷-۱۹۲ ملاحظہ فرمائیں) (۵) جب دونوں کے درمیان خلع نہیں ہوا تو دونوں کا نکاح حسب سابق باقی ہے۔ (۶) جب نکاح کے بعد دخول یا خلوت صحیحہ ہوگئی تو شوہر پر عورت کا پورا مہر لازم وموٴکد ہوگیا (درمختا رمع الشامی ۴: ۲۳۳) البتہ اگر شوہر مہر پر خلع یا طلاق دیتا ہے اور عورت اسے منظور کرلیتی ہے تو شوہر کے ذمہ سے مہر ساقط ہوجائے گا، کذا فی الدر والرد کتاب الطلاق، باب الخلع۔ (۷) اس کا جواب اوپر کے جوابات سے واضح ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند