• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 52923

    عنوان: اگر شادی شدہ عورت کا غیر سے تعلق ثابت ھو جائے تو ایسی عورت کا رکھنا کیسا ہے ؟

    سوال: 1. اگر شادی شدہ عورت کا غیر سے تعلق ثابت ھو جائے تو ایسی عورت کا رکھنا کیسا ہے؟ 2. اور وہ عورت ایک غیر محرم کو اپنے طور پر بھائی بنا لے کے یہ میرے بھائی کی طرح ہے اس کے ساتھ گھومیں پھرے بھی تو اس کا کیا حکم ھے ؟ 3. جس کو اس عورت نے اپنا بھائی کہا ہے واضح رہے وہ اس کا کوئی دور کا رشتہ دار بھی نہیں جب وہ فون کرے تو خاوند کو اطلاع دہے بغیر نکل جائے اور کئی کئی دن تک غائب دہے تو کیا وہ عورت رکھنا کیسا ہے ؟ 4. جبکہ اس عورت کا خاوند اس پوریشن میں نہیں ہے کے اس کو حق مہر دے کر نکال سکے لیکن اس کو دلی طور پر برا سمجھتا ہے جب اس عورت کے خاوند نے اس کو بری حرکات پر ٹوکنا شروع کیا تو اس نے عدالت میں کیس کر دیا کے مجھے ناجائز طور پر مارتا پیٹتا ہے اور خرچہ بھی نہیں دیتا اور عدالت نے خلع کا حکم اس عورت کے کہنے پر دے دیا اب وہ عورت دوبارہ رہنا چاہتی ہے لیکن نہ تو اس نے اس مرد سے علیحدگی اختیار کی اور جرگہ میں بھی اس نے یہاں تک کہ دیا کے میرا خاوند اس غیر محرم سے معافی مانگے اب مسئلہ یہ ہے کے خاوند رکھنا تو نہیں چاہتا لیکن اگر وہ برملا کہتا ہے تو عدالت کی طرف سے اس کا مکان جو اس عورت کے نام کر دیا گیا ہے وہ جاتا ہے اور اس کا خاوند اس وقت بھی قرضوں کے نیچے ہے کوئی دوسری زمین بھی نہیں پوچھنا یہ ہے کے عدالت نے جو خلع دی وہ کس ذمرے میں آتا ہے؟ آیا وہ دوبارہ رہ سکتی ہے یا نہیں؟ اگر خاوند اب نہ رکھنا چاہے تو اس کے اوپر مہر دینا لازم ہے یا نہیں اور اگر اب اس سے جان چھڑانے کے لئے طلاق دے دے تو اس کے اوپر حق مہر پڑھے گا کے نہیں کیوں کے وہ عورت اس خلع کو ایک طلاق کہ رہی ہے اور گاؤں میں کہتی پھرتی ہے کہ میں واپس جاؤں گی

    جواب نمبر: 52923

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1012-1076/N=9/1435-U (۱) ایسی عورت کو طلاق دینا واجب نہیں، البتہ اگر سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود باز نہ آئے اور اس کی وجہ سے آدمی ذہنی اذیت کا شکار ہو تو طلاق دیدینا بہتر ہے، ”وفي آخر خطر المجتبی: لا یجب علی الزوج تطلیق الفاجرة“ (درمختار مع الشامي ۴: ۱۴۳، ۱۴۴ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)، ”وقولہم:‘الأصل فیہ الحظر” معناہ أن الشارع ترک ہذا الأصل فأباحہ، بل یستحب لو موٴذیة أو تارکة صلاة غایةً (درمختار مع الشامي ۴: ۴۲۷، ۴۲۸)، قولہ: ”لو موٴذیة“: أطلقہ فشمل الموٴذیة لہ أو لغیرہ بقولہ أو بفعلہا ط (شامي ۴: ۴۲۸)۔ (۲) مذہب اسلام میں جس طرح منھ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کے حکم میں نہیں ہوتا، اسی طرح کسی کو بھائی بنانے سے وہ حقیقی بھائی کے حکم میں نہیں ہوتا؛ لہٰذا عورت کا کسی اجنبی مرد کو بھائی بناکر اسے حقیقی بھائی کے درجہ میں سمجھنا اور اس کے ساتھ گھومنا پھرنا ہرگز جائز نہ ہوگا۔ (۳) نمبر ایک میں اس کا جواب آگیا۔ (۴) شرعی اعتبار سے شوہر کی اجازت ومرضی کے بغیر خلع نہیں ہوسکتا؛ لہٰذا اگر عدالت نے صرف بیوی کے کہنے پر اپنی جانب سے خلع دیا ہے تو از روئے شرع یہ خلع غیرمعتبر ہے اور عورت اپنے شوہر کے نکاح سے خارج نہیں ہوئی (تفصیل کے لیے فقہی مقالات، مقالہ: اسلام میں خلع کی حقیقت ۲: ۱۳۷-۱۹۲ ملاحظہ فرمائیں) (۵) جب دونوں کے درمیان خلع نہیں ہوا تو دونوں کا نکاح حسب سابق باقی ہے۔ (۶) جب نکاح کے بعد دخول یا خلوت صحیحہ ہوگئی تو شوہر پر عورت کا پورا مہر لازم وموٴکد ہوگیا (درمختا رمع الشامی ۴: ۲۳۳) البتہ اگر شوہر مہر پر خلع یا طلاق دیتا ہے اور عورت اسے منظور کرلیتی ہے تو شوہر کے ذمہ سے مہر ساقط ہوجائے گا، کذا فی الدر والرد کتاب الطلاق، باب الخلع۔ (۷) اس کا جواب اوپر کے جوابات سے واضح ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند