• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 50004

    عنوان: شہید کی تعریف؟

    سوال: مفتی صاحب میں نے یہ پوچھنا ہے کہ اگر کوئی شخص ہزاروں مسلمانوں کا قاتل ہو تو اگر وہ غیر ملکی افواج کے ہاتھوں مارا جائے تو کیا وہ شہید کہلایے گا؟ آجکل پاکستان میں بہت بحث چل پڑی ہے کہ طالبان کا سابقہ لیڈر حکیم اللہ محسود شہید تھا یا مارا گیا، ہر سیاسی و مذہبی جماعت اس کو اپنے اپنے لحاظ سے شہید یا مردہ قرار دے رہی ہے ، یہاں تک کہ اس میدان میں کئی علماء حضرات بھی اپنے اپنے لحاظ سے اسے مردہ یا شہید قرار دے رہے ہیں، جسکی وجہ سے ایک عام انسان انتہائی انتشار کا شکار ہے کہ کس کی بات مانی جائے ، شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت کیجئے کہ ایسا شخص شہید ہے یا مردہ؟ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 50004

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 189-159/H=2/1435-U اگر اہل حق حقیقی اہل سنت والجماعت علمائے کرام کے مابین اختلاف ہے تو اس اختلاف کی وجہ سے عام انسانوں کو ادنی سے انتشار میں بھی مبتلا ہونے کی شرعاً وعقلاً کچھ ضرورت نہیں نہ اختلافی مسائل میں حَکَم اور فیصل بن کر عام مسلمانوں کو بے لاگ فیصلے نافذ کرنے کی حاجت ہے،ان جیسے اختلافی مسائل سے متعلق نہ ان سے قبروں میں سوال ہوگا نہ حشر میں کچھ باز پرس کا اندیشہ ہے، جن امورِ دینیہ کے اختیار کرنے کے وہ مکلف ہیں ان میں ان کو لگنا چاہیے، عقائد واعمال کی درستگی دین پر جماوٴ اور ایمان واسلام پر پختگی پیدا کرنے کی فکر کرنا چاہیے، گناہوں سے اجتناب کو لازم پکڑنا چاہیے اور جن امور کا تعلق عامة المسلمین سے نہیں، نہ ان میں غور خوض کے اللہ ورسول کی جانب سے وہ مکلف ہیں، ایسے امور سے پرہیز کرنا چاہیے ان جیسے امور میں داخل ہونے سے تمام لوگوں کے ایمان اور اسلام کی خوبصورتی فنا ہوجاتی ہے، انتہائی انتشار وخلفشار میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ علیحدہ ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند